عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رسم کافروں اور فیشن پرست لوگوں کی ایجاد ہے دیندار علماء و فضلا اس کو پسند نہیں کرتے اور یہ ان کے طرز عمل کے خلاف ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اگر حج یا عمرہ پر جانے والا شخص احرام کی حالت میں ہوگا تو اس کے گلے میں خوشبو دار پھولوں کے ہار وغیرہ ڈالنے سے اس کو ان کو سونگھنا یعنی ان کی خوشبو سے مستفید ہونا لازم آئیگا اگر چہ اس سے کفارہ لازم نہ ہوگا لیکن مکروہ ہوگا اور احرام کی حالت میں ظاہری زیب و زینت کرنا تذلل و انکساری اور میلا کچیلا رہنے کیخلاف بھی ہے جو کہ احرام کی حالت میں مطلوب ہے ۸؎ عطر فروش کی دکان میں بیٹھنے کا مضائقہ نہیں ہے ۹؎ البتہ خوشبو سونگھنے کے قصد سے بیٹھنا مکروہ ہے ۱۰؎ ۔ (۲) مُحرم خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے لئے اپنے بدن وازار (تہبند ) و چادر اور اپنے جسم کے تمام کپڑوں اور بستر میں خوشبو کا استعمال کرنا اور خوشبو کو اس طرح چھونا یا سونگھنا کہ جس سے خوشبو کا کچھ حصہ اس کے کسی عضو کو لگ جائے منع ہے اور محض سونگھانا یا چھونا اس طرح پر کہ خوشبو کا کچھ حصہ اس کے کسی عضو کو نہ لگے منع نہیں ہے لیکن قصداً ایسا کرنا مکروہ ہے ، اگر اس کے قصد کے بغیر خوشبو آجائے تو مکروہ نہیں ہے ۱۱؎ (۳) خوشبو کو خواہ قصداً استعمال کرے یا بلا قصد ہر حال میں جنایت ہے اور جزا واجب ہو گی اسی لئے مبسوط میں کہا ہے کہ اگر کسی شخص نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس کے منھ یا ہاتھ کو بہت خوشبو لگ گئی تو اس پر دم واجب ہوگا اور اگر تھوڑی لگی تو صدقہ واجب ہوگا ۱۲؎ ۔ (۴) اگر کسی ایسے گھر میں داخل ہوا جس میں خوشبو کی دھونی دی گئی ہے اور اس کی خوشبو اس کے کپڑوں سے آنے لگی تو ا س پر کچھ جزا واجب نہیں ہے کیونکہ وہ خوشبو کے عین