عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نماز جماعت کے ساتھ عشا کے اول وقت میں پڑھے پھر اس کے متصل ہی عشا کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور اس کے لئے اذان اور اقامت نہ کہی جائے بلکہ وہی پہلی اذان واقامت کافی ہے، ان دونوں نمازوں کے اکٹھا پڑھنا کے شرائط پہلے الگ بیان میں گزرچکے ہیں، مغرب کی نماز میں قضا کی نیت نہ کرے ادا ہی کی نیت کرے کیونکہ اس دن نماز مغرب کا یہی وقت ہے یہ اس دن اور اس مقام کے حاجیوں کے لئے خصوصیت ہے، ان دونوں نمازوں کے جمع کرنے میں جماعت سنتِ مؤکدہ ہے شرط نہیں ہے پس اگر کسی نے ان دونوں نمازوں کو اکیلے ہی پڑھا تو جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ جماعت سے پڑھے اور سنت یہ ہے کہ امامِ حج کے ساتھ پڑھے، عشا کی فرض نماز سے فارغ ہوکر مغرب کی سنتیں پھر عشا کی سنتیں پھر وتر پڑھے، اگر امامِ حج کے ساتھ نماز نہ ملے تب بھی اسی ترتیب سے مغرب وعشا ادا کرے یہاں مغرب وعشاء کو جمع کرنے کے لئے امام ِ حج کی شرط نہیں ہے جیسا کہ اوپر بیان ہو ا اگر عشا سے پہلے مزدلفہ پہنچ جائے تو جب تک عشا کا وقت نہ ہوجائے اس وقت تک مغرب کی نماز نہ پڑھے۔ مغرب وعشا کی نماز فرض سنتوں اور وتر سے فارغ ہونے کے بعد باقی تمام رات فجر تک مزدلفہ میں گزارے ۔ احناف کے نزدیک یہ سنت مؤکدہ ہے۔ اس رات کی فضیلت قرآن مجید میں مذکور ہے اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے ’’ فاذاافضتم من عرفات ‘‘الآیہ۔ کہا گیا ہے کہ مزدلفہ میں رات کو رہنے والے حجاج کے حق میں یہ رات شبِ قدر سے افضل ہے اور زیادہ قابلِ قدر ہے اس لئے اس کا پورا احترام کرے کہ یہ رحمت وبرکت والی رات کہیں صرف نیند ہی کی نذر ہوکر نہ رہ جائے بلکہ جس قدر ہوسکے شب بیداری کرے او رعبادتِ الٰہی میں گزارے نفل نماز وتلاوت وذکر وتلبیہ ودعا وتضرع وزاری میں مشغول رہے کیونکہ یہ عید الاضحی کی رات ہے اور اس میں