عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کا اکثر حصہ سوار ہوا خواہ عذر سے ہو یا بغیر عذر کے تواس پر دم واجب ہوگا اور اگر آدھے یا آدھے سے کم راستے میں سوار ہوا تو اوسط درجہ کی بکری کی قیمت میں سے اس سواری کے سفر کے بقدر صدقہ کرنا واجب ہے ۶؎۔ اوراگر وہ شخص مکہ معظمہ میں ہے تو پیدل حج کی نذر کرنے کی صورت میں وہ حل سے احرام باندھے اور عرفات کی طرف پیدل جائے اور طواف زیارت تک پیدل سفر کرے اور پیدل عمرہ کی نذر کرنے کی صورت میں حل کی طرف جائے اور وہاں سے احرام باندھے اور اس بارے میں اختلاف ہے کہ حل کی طرف جاتے ہوئے بھی اس پر پیدل چلنا واجب ہے یا جاتے ہوئے نہیں بلکہ وہاں سے احرام باندھنے کے بعد صرف واپس آتے ہوئے ہی پیدل چلنا واجب ہے اور دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ حل کی طرف جاتے ہوئے بھی پیدل چلنا اس پر واجب ہونا چاہئے کیونکہ پہلے حج کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے کہ اس کو اصح قول کی بنا پر اپنے شہر سے پیدل چلنا واجب ہے حالانکہ اس نے وہاں سے احرام نہیں باندھا بلکہ وہ احرام کے مقام کی طرف جارہا ہے تاکہ وہاں سے احرام باندھے پس اسی طرح یہاں بھی ہے۔ یہ توجیہ صاحب فتح القدیر کی ہے اور بحر الرائق وغیرہ نے اس کااتباع کیا ہے ۷؎ (۳) امام ابو حنیفہ ؒ سے روایت ہے کہ اگر بغداد کے رہنے والے کسی شخص نے کہا کہ اگر فلاں شخص سے بات کروں تو مجھ پر واجب ہے کہ پیدل حج کروں پھر وہ اس شخص کو کوفہ میں ملا اور اس سے بات کی تو اس پر واجب ہے کہ وہ بغداد سے پیدل چل کر حج کرے ۱؎ اور خانیہ میں ہے کہ ایک شخص نے جو کہ خراسان میں ہے کہا کہ اگر میں کوفہ میں فلا ں شخص سے بات کروں تو مجھ پر بیت اﷲ کی طرف پیدل جانا واجب ہے پھر اس نے کوفہ میں اس شخص سے بات کی تو اس پر خراسان سے بیت اﷲ تک پیدل جانا واجب ہے اھ ۲؎