عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تینوں کا کسی کی طرف سے حج کرنا مکروہ ہے، آزاد عورت کا کسی عورت کی طرف سے حج کرنا مکروہ نہیں ہے پھر بھی اس کے لئے مرد سے حج کرانا افضل ہے ۴؎ پس مرد وعورت اس بارے میں برابر ہیں لیکن عورت سے حج کرانا مکروہ ہے اگرچہ جائز ہے جواز کا ثبوت خثعمیہ عورت والی حدیث ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے اور کراہت اس لئے ہے کہ عورت کے حج میں چند لحاظ سے نقص آجاتا ہے اسلئے کہ عورت حج کی تمام سنتوں پر عمل نہیں کرتی یعنی وہ طواف اور صفا ومروہ کے درمیان رمل نہیں کرتی اور سر کے بال نہیں منڈاتی ( بلکہ قصر کرتی ہے ) اور تلبیہ بلند آواز سے نہیں کہتی ۵؎ پس آزاد مرد و غلام اور باندی وآزاد عورت سے حج کرانا بھی جائز ہے ۱؎ یعنی آزاد مرد یا غلا م اپنے آقا کی اجازت سے دوسرے شخص کا حج کرے تو جائز ہے لیکن غلا م سے حج کرانا مکروہ ہے غلام سے حج کرانے کا جواز اس لئے ہے کہ وہ نیابت کے طورپر عمل کرتا ہے اور جس چیز میں نیابت جائز ہوتی ہے جیسا کہ زکوٰۃ وغیرہ اور کراہت اس لئے ہے کہ وہ اپنا فرض حج ادا کرنے کا اہل نہیں ہے پس اس کا دوسرے کی طرف سے حج کرنا مکروہ ہوا ۲؎ درمختار وفتح القدیر میں غلام سے حج کرانا صحیح ہونے کو مطلق طور پر بیان کیا ہے ، ردالمحتار شامی میں کہا ہے کہ خواہ وہ اپنے آقا کی اجازت سے دوسرے کا حج کرے یا اپنے آقا کی اجازت کے بغیر کرے دونوں صورتوں میں صحیح ہے جیسا کہ معراج الہدایہ میں اس کی تصریح کی ہے پس سمجھ لیجئے ۳؎ اور شرائط نیابت کی آٹھویں شرط میں بیان ہوچکاہے کہ مراہق ( قریب البلوغ) سے حج کرانا صحیح ہے ( مؤلف) اور افضل یہ ہے کہ ایسے شخص سے حج کرایا جائے جو حج کا طریقہ اور اس کے افعال جانتا ہو اور آزاد وبالغ ہو ۴؎