عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
روایت سے معلوم ہوا کہ امام سے اس مسئلہ میں دو قول ہیں ایک قول تفویض کا ہے (یعنی اس کا فیصلہ اﷲ تعالیٰ جس طرح چاہے گا کرے گا) اور دوسرا قول مامور کی طرف سے واقع ہونے کا ہے اور ہمارے ائمہ کا یہ اختلاف ایسا ہے جس کا کوئی ثمرہ (نتیجہ) نہیں ہے اس لئے کہ اس بات پر سب فقہا کا اتفاق ہے کہ اس حج سے آمر کا فرض حج اس کے ذمہ سے ادا ہوجاتا ہے جبکہ مامور نے اس کو آمر کے امر کے موافق ادا کیا ہو اور (اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ) اس سے مامور کا (فرض) حج ساقط نہیں ہوتا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ آمر کی طرف سے حج ادا کرنے کی نیت کرے اور یہی اس کے مذہب ہونے کی دلیل ہے اور یہ جو کہا ہے کہ ’’اس حج سے مامور کا حج ساقط نہیں ہوتا‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مامور کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرے تو اس سے مامور کا فرض حج بالاجماع ساقط نہیں ہوتا خواہ اس نے آمر کے امر کے موافق ادا کیا ہو یا اس کے مخالف ادا کیا ہو جس کی وجہ سے وہ حج مامور کے لئے متعین ہوگیا ہو اور خواہ مامور کے ذمہ حج فرض باقی ہو یا ابتداً اس پر حج فرض ہی نہ ہوا ہو یا فرض ہونے کے بعد وہ اس کو ادا کرچکا ہو (ان سب صورتوں میں آمر کی طرف سے کیا ہوا حج مامور کے فرض حج کی جگہ ادا نہیں ہوگا، مؤلف) اور اسی طرح اگر کسی نے اپنے والد کی طرف سے حج ادا کیا حالانکہ اس کے والد پر حج فرض نہیں تھا تب بھی اس سے حج کرنے والے کافرض حج ادا نہیں ہوگا اگرچہ وہ منعقد ہوگیا ہے ۱؎ اور آمر کی طرف سے واقع ہونے کے قول کی بناء پر مامور ثواب سے محروم نہیں رہے گا ۲؎ ۔ (۳) اور جو اختلاف اوپر بیان ہو ا وہ حج فرض کے بارے میں ہے لیکن آمر کی طرف سے ادا کئے ہوئے نفلی حج کے بارے میں بعض فقہا نے کہا کہ وہ ہمارے مشائخ کے نزدیک