عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ قول راجح ہے کہ بغیر احرام میقات سے گزرجانے کی وجہ سے مخالف نہیں ہوگا لیکن اس کو میقات کی طرف لوٹ آنا اور وہاں سے احرام باندھنا لازم ہے جیسا کہ علامہ شیخ یحییٰ بن صالح الحباب نے اس کی تحقیق کی ہے اھ بلکہ یہ بات اس کی صراحت کرتی ہے کہ جو آفاقی احرام کے بغیر مکہ معظمہ میں داخل ہوا اور وہ مامور بالحج ہے اگر وہ مکہ معظمہ سے احرام باندھ لے گا تو اس کا حج آمر کی طرف سے صحیح ہوگا اور اس پر صرف دم واجب ہوگااور اگر وہ میقات کی طرف لوٹ جائے اور وہاں سے احرام باندھے تو اب بالاتفاق اس سے دم بھی ساقط ہوجائے گا ۔پھر ملا علی قاریؒ نے اپنے رسالہ کے آخر میں کہا ہے کہ شیخ قطب الدینؒ اور ہمارے شیخ سنان رومیؒ نے اپنی منسک قرۃ العین میں اور شیخ علی مقدسیؒ نے اسی پر فتویٰ دیا ہے اور پھر شیخ مقدسی کے فتویٰ کو نقل کیا ہے اور اس عبارت سے یہ افادہ ہوتا ہے کہ اگر وہ مامور واپس میقات پر آکر وہاں سے حج کا احرام باندھ لے تو اس کا حج آمر کی طرف سے جائز ہوجائے گا اور بحر وغیرہ کے قول’’ کہ اس صورت میں اس کاسفر حج کے لئے نہیں ہوگا‘‘ کا جواب یہ ہے کہ جب مامور میقات سے احرام کے بغیر آگے چلاگیا اور میقات سے آگے گزرتے وقت اس نے جدہ کی بندرگاہ یا بُستانِ بنی عامر کا قصد کیا تاکہ وہا ںچند روز مثلاً خرید وفروخت کے لئے ٹھہر ے گا اس کے بعد مکہ معظمہ میں داخل ہوگا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا سفر حج کے لئے نہ ہو جیسا کہ اگر وہ اپنے راستہ میں کسی اور مقام کا قصد کرتا اور پھر وہا ںسے وہ مکہ معظمہ منتقل ہوجاتا واﷲ تعالیٰ اعلم ۔ پھر جب وہ احرام باندھنے کے وقت حِل کی طرف نکلا اور میقات سے آمر کی طرف سے احرام باندھا تو اس کے لئے جائز ہے اس لئے کہ وہ آفاقی ہوگیا اور اگر اس نے آمر کی طرف سے احرام باندھنے سے پہلے کوئی غیر مامور بہٖ نسک (عمرہ ) اداکیا تو وہ مخالف ہوگا