عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
معظمہ سے اس کا حج کیا جائے اور یہ حکم دونوں صورتوں میں اس وقت ہے جبکہ وہ دونوں شخص اپنے اپنے وطن میں غنی (مالدار) ہوں لیکن اگر مکہ کا رہنے والا شخص رَے میں آکر غنی ہوگیا اور خراسانی مکہ میں غنی ہوا اور ان دونوں نے اپنی طرف سے حج کرنے کی وصیت کی تو ان دونوں پر اس جگہ سے حج کرانا واجب ہونا چاہئے جہاں ان پرحج فرض ہوا ہے لیکن اگر مکہ کا رہنے والا رَے میں آیا اوروہاں مرگیا اور اس نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے حجِ قران کیا جائے تو اس کی طرف سے رَے سے حجِ قران کیا جائے کیونکہ اہلِ مکہ کے لئے قران جائز نہیں ہے پس اس کی وصیت کو اس جگہ پر حمل کیا جائے گا جہاں سے اس پر عمل کرنا صحیح ہوا اور وہ اس کی جائے وفات رَے سے قران کرنا ہے ۱؎ (۱۲) جن مذکورہ بالا صورتوں میں اس کے شہر سے حج کرنا واجب ہوتا ہے اگر اس کے متروکہ تہائی مال میں اس کے شہر سے حج کرانے کی گنجائش ہونے کے باوجود وصی نے اس کے شہر کے علاوہ کسی اور جگہ سے حج کردیا (جیسے دہلی کے رہنے والے کی طرف سے مامور نے بمبئی سے حج کیا یا لاہور میں رہنے والے کی طرف سے بہاولپور یا کراچی سے حج کیا ۲؎ ) تو ( جائز نہیں ہے اور ) وصی ضامن ہوگا کیونکہ اس نے آمر کے امر کے خلاف کیا اور یہ حج وصی کا اپنا ہوگا اور وہ آمر کی طرف سے دوبارہ حج کرے لیکن اگر وہ جگہ اس کے شہر سے قریب ہے یعنی اتنی دُور ہے کہ صبح کو اس کے شہر سے ( درمیانی رفتار سے ) چل کر اس جگہ پہنچ جائے اور رات ہونے سے پہلے اس کے شہر میں واپس آجائے تو اب وہ آمر کا مخالف نہیں ہوگا اور ضامن بھی نہیں ہوگا اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ متروکہ تہائی مال میں ( یا معینہ رقم میں ) اس کے شہر سے حج ہوسکتا ہو ۲؎ پس اگر وہ تہائی متروکہ مال یا وہ مال جو وصیت کرنے والے نے معین کردیا ہے اس قدر نہ ہوکہ اس کے