عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو ابو داؤد ونسائی اورترمذی نے روایت کیا ہے اوراس کو صحیح کہا ہے ۳؎ پس حج میں نیابت جائز ہونے کی ایک شرط عاجز شخص کا دوسرے شخص کو اپنی طرف سے حج کرنے کا صریحاً امر کرنا ہے جبکہ وہ شخص زندہ ہو ( پس اگرزندہ کی طرف سے اس کے امر کے بغیر حج کرادے گا تو زندہ کا فرض ساقط نہیں ہوگا، زبدہ) اور اگر مرگیا ہو اور اپنی طرف سے حج کرانے کی وصیت کرگیا ہو اور وہ صاحبِ مال ہو تو وصی یا وارث کا امر کرنا شرط ہے( پس اگر کوئی وصیت کرکے مراتو وصی یاوارث کے امر کے بغیر اس میت کا حج ادا نہیں ہوگا ۴؎ ) یا آمر کا امر کرنا دلالۃً پایا جائے، دلالۃً کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مرگیا اس پر حج فرض تھا، اس نے اس کی ادائیگی کے لئے کوئی وصیت نہیں کی یا اس نے وصیت کی لیکن کوئی مال نہیں چھوڑا اب اگر وارث یا اجنبی شخض اس کی طرف سے تبرعاً حج کردے یا کسی دوسرے شخض سے کرادے تو امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ انشاء اﷲ تعالیٰ اس میت کا حج فرض ادا ہوجائے گا کیونکہ دلالۃً امر پایا جاتا ہے اس لئے کہ میت کی طرف سے اس کے لئے ہر شخص کو اجازت ہوتی ہے بخلاف دوصورتوں کے اول جبکہ وہ زندہ ہو خواہ حج کے لئے امر کرے یا نہ کرے یا اس صورت میں کہ جبکہ وہ مرگیا ہو اور اُس نے حج کرنے کے لئے وصیت کی ہو اور مال چھوڑا ہو کہ ان دونوں صورتوں میں اگر وارث یا اجنبی شخص نے تبرعاً اس کی طرف سے حج اداکردیا تو جائز نہیں ہے اور وہ اکثر مشائخ کے نزدیک حج کرانے والے کا نفلی حج ہوگا اور بہت سے محققین کے نزدیک مختاریہ ہے کہ اس سے حج کرنے والے کا حج فرض ادا ہوجائے گا جیسا کہ آگے آتا ہے ۵؎ اور شرنبلالیہ میں کہا ہے کہ میں کہتا ہوں یعنی وہ میت کے فرض حج کی جگہ جائز نہیں ہوگا البتہ اس حج کا ثواب اس کے لئے جائز ہوگا اور ردالمختار (شامی) میں ہے ’’ لیکن عنقریب آگے بیان آتا ہے جو اس بات