عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے اعمال کو ان کے آباء کے اعمال میں شامل کیا ہے، اس آیتِ شریفہ سے معلوم ہوا کہ اولاد اپنے باپ دادا کی نیکیوں کے ذریعے جنت میں داخل کی جائے گی، یایہ کہ یہ آیتِ مذکورہ مقید ہے جیسا کہ مذکورہ بالاآیاتِ قرآنی واحادیث سے ثابت ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس آیت مبارکہ کا حکم حضرت موسیٰ و حضرت ابراہیم علیہما الصلوٰۃ والسلام کی قوم کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ اس آیت میں ان دونوں حضرات کے صحف میں مذکور ہ حکم کی حکایت بیان کی گئی ہے جیسا کہ آیتِ سعی سے پہلے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسیٰ وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی‘‘۔اور بعض نے کہا کہ اس آیت میں انسان سے مراد کافر ہے مؤمن کے حق میں نفی نہیں، مؤمن کے لئے اس کے مومن بھائی کی سعی میں حصہ ہے اور بعض نے کہا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ عدل وانصاف کے طریق پر اس کو دوسرے کی سعی سے کچھ حصہ نہیں ہے البتہ فضل کے طریق پر اس کو حصہ حاصل ہوسکتا ہے اور بعض نے کہاکہ للانسان کا لام،علیٰ کے معنی میں ہے (یعنی انسان پر صرف اسی کے عملوں کی وجہ سے گرفت ہوگی دوسرے عملوں کی وجہ سے نہیں جیسا کہ لھم اللعنۃ کے معنی علیھم اللعنۃ یعنی ان پر لعنت ہے، مؤلف)اور بعض نے کہا انسان کے لئے اس کی کوشش کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہے لیکن اس کی کوشش کے لئے بھائیوں کی کثرت اور ایمان کا حاصل ہونا وغیرہ بہت سے اسباب کاتعلق ہے ،اور بعض نے کہا کہ انسان کے لئے غیرکی سعی سے کچھ حاصل نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص دوسرے شخص کے لئے بخش دے تو اب وہ اس کو حاصل ہوگا اس بارے میں اور بھی بہت سے اقوال ہیں سب سے زیادہ مناسب وہ قول ہے جس کو محقق امام ابن الہمامؒ نے اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت کا مضمون مقید ہے یعنی عامل اگر اپنا عمل کسی کو بخش دے تو اس کو اس کا نفع