عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۵) جن صورتوں میں حج یا عمرہ ترک کرنے کا حکم ہے ان صورتوں میں ترک کرنے کے لئے ترک کی نیت کرنا ضروری ہے البتہ دو جگہ نیت کی ضرورت نہیں بلانیت بھی ترک ہوجائے گا، ایک جمع بین الحجتین کی صورت میں جبکہ اس نے وقوفِ عرفہ کاوقت ختم ہونے سے پہلے دوسرے حج کا احرام باندھا ہو، دوسرے جمع بین العمرتین کی صورت میں جبکہ دوسرے عمرہ کا احرام پہلے عمرہ کی سعی سے پہلے باندھا ہو پس ان دونوں صورتوں میں جب وہ مکہ معظمہ کی طرف چل دے گا یادونوں میں سے ایک کے اعمال شروع کردے گا ( علی اختلاف الروایۃ عن ابی حنیفہؒ) تو اس کو دوسرا احرام بلانیت ہی ترک ہوجائے گا ۱؎ (۶) احرام کا ترک صرف ترک کے الفاظ کہنے یا صرف ترک کی نیت کرنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ جب وہ رفض (ترک ) پر مامور ہو تو ترک کرنے کی نیت کرکے محظوراتِ احرام میں سے کوئی فعل کرے تب ترکِ احرام حاصل ہوتا ہے ( بغیر طریقہ اختیار کئے صرف چھوڑنے کی نیت کرے یا نیت کرے اور چھوڑنے کا طریقہ اختیار نہ کرے تو رفض حاصل نہ ہوگا ۲؎ ) اور جب وہ ترک کرنے پر مامور نہیں ہے اور اس نے لباس پہننا، حلق کرانا وغیرہ وہ افعال کئے جو بغیر احرام کے یعنی حلال ہونے کے صورت میں کرتا ہے تو اس سے احرام کاترک حاصل نہیں ہوتا اور ان افعال کرنے سے وہ احرام کی حالت سے باہر (یعنی حلال ) نہیں ہوتا اور اس صورت میں اس کی نیت رفض باطل ہے ۳؎ اور لباب المناسک اور اس کی شرح ملا علی قاری حکم الاحرام کی فصل میں ہے کہ ترکِ احرم بعض صورتوں میں نیتِ رفض کے ساتھ ترکِ اعمال کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے اور بعض صورتوں میں اعمال شروع کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے اگرچہ ان صورتوں میں نیتِ رفض نہ بھی کی ہو۔فافہم ۴؎