عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائے پس اگر اس نے عمرہ ترک کردیا تو افعالِ عمرہ اداکئے بغیر احرام سے باہرہونے کی وجہ سے اس پر ایک دم واجب ہوگا اور لازم ہوجانے کی وجہ سے ان ایام کے گزرنے کے بعد اس پر اس عمرہ کی قضا واجب ہوگی ۳؎ (۳) اوراگر اس نے اس عمرہ کو ترک نہ کیا اورانہی ایام میں ادا کرلیا تو اس کا وہ عمرہ (کراہت کے ساتھ ) درست وجائز ہوجائے گا کیونکہ یہ کراہت لغیر ہا ہے یعنی کراہت کی وجہ امرِ حج کی تعظیم نہ کرنا اور حج کے وقت کو دوسرے امور سے خالی نہ کرنا ہے پس ان ایام میں عمرہ کا شروع ہونا صحیح ہے اور ان دنوں میں ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا کیونکہ جیسالازم ہوا تھا اس نے اس کو ویسا ہی ادا کرلیا ۱؎ (اور اس پر دم لازم ہونے یا نہ ہونے کے بارے تفصیل ہے اور وہ یہ ہے، مؤلف) اگر اس شخص نے اس سال بالکل حج نہیں کیا تو اس پر کوئی دم واجب نہیں ہوگا کیونکہ نہ وہ دو احرام کا جمع کرنے والا ہے یعنی اس نے احرامِ عمرہ کو احرامِ حج پر داخل نہیں کیا،اور نہ ہی وہ عمرہ کے احرام کو ترک کرنے والا ہے لیکن اس کا یہ فعل مکروہ ِ تحریمی ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اور اگر کسی نے ان پانچ ایامِ ممنوعہ میں عمرہ کا احرام باندھا تو اس کو اس عمر ہ کے ترک کرنے کا امر کیا جائے گا ، اگر اس نے عمرہ ترک نہ کیا اور عمرہ کا طواف وغیرہ بھی ان دنوں میں نہیں کیا( یعنی افعالِ عمرہ ادا کئے بغیر احرام کی حالت میں رہا ) یہاں تک کہ ایامِ تشریق گزرگئے اس کے بعد عمرہ کا طواف وغیرہ افعال ادا کئے تو جائز ودرست ہے اور اس پر کوئی دم واجب نہیں ہوگا اور اس پر کوئی کراہت بھی نہیں ہے کیونکہ وہ ایامِ ممنوعہ میں عمرہ کے افعال ترک کرکے کراہت سے بچ گیا اس لئے کہ ان دنوں میں عمرہ کی ممانعت ہے اور عمرہ سے مراد افعال عمرہ ہیں پس اس کو اصل احرامِ عمرہ کا ترک کرنا لازم نہیں ہے بلکہ افعالِ عمرہ کا ترک