عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمرہ کرنا منع ہے ، ان ایام سے پہلے یا بعد میں جتنے عمرے چاہے کرے اھ۔اور ان دنوں میں عمرہ کرنا اس لئے بھی مکروہ ہے کہ یہ دن حج کے لئے متعین ہیں ان دنوں میں عمرہ کرنے سے حج کے کاموں میں رکاوٹ ہوگی اور اکثر اس سے حج میں خلل واقع ہوگا پس بظاہر یہ دن حج کے لئے مخصوص ہیں اگرچہ کوئی ان دنوں میں حج نہ بھی کرے اور اسی طرح حدیث شریف میں اِ ن دِنوں میں عمرہ کرنے کی ممانعت مطلق طور پر وارد ہوئی ہے اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے پس امِر حج کی تعظیم کے لئے ان ایام میں عمرہ کا مکروہِ تحریمی ہونا حج کرنے والے اور حج نہ کرنے والے سب کے لئے ہے اس لئے کہ اس کو حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان ایام سے قبل وبعد تمام سال میں اس کو عمرہ کرنا جائز ہے اور فقہا نے یومِ عرفہ میں عمرہ کا مکروہِ تحریمی ہونا مطلق طور پر بیان کیا ہے پس کراہت کا یہ حکم عرفہ کے دن زوال سے قبل اور بعد دونوں کو شامل ہے یہی مذہب ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، امام ابو یوسفؒ کا اس میں اختلاف ہے ان کے نزدیک نویں ذی الحجہ کو زوال سے پہلے عمرہ کا احرام باندھنا مکروہ نہیں ہے کیونکہ حج کے رکن (وقوفِ عرفات) کا وقت زوال کے بعدداخل ہوتا ہے زوال سے پہلے نہیں یعنی عرفہ کے روز زوال سے قبل وقوف کا وقت نہیں ہے اس لئے اس وقت میں عمرہ کا احرام باندھنا وقوفِ عرفہ کو اپنے وقت میں کرنے کا مانع نہیں ہوگا اور اظہر مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکا ہے ۲؎ (۲) اور اگر کسی نے ان پانچ ممنوعہ ایام میں عمرہ کا احرام باندھ لیا تو یہ عمرہ اس پر لازم ہوجائے گا کیونکہ ان دنوں میں عمرہ کا شروع ہونا کراہتِ تحریمی کے ساتھ درست ہے لیکن اس کو اس عمرہ کاترک کردینا لازم ہے اگرچہ وہ اس سال حج بھی نہ کرے تاکہ گناہ سے بچ