عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
(۵) ان روزوں کی نیت رات میںکرنا، پس اگر کسی نے سورج غروب ہونے سے پہلے یا طلوعِ فجر کے بعد نیت کی تو جائز نہیں ہے جیسا کہ حج وغیرہ کے تمام کفارات کے روزوں میں یہی شرط ہے کہ نیت رات میں ہونی چاہئے ۶؎ (۶) ان روزوں میں بھی تمام کفارات کے روزوں کی طرح نیت کا تعین ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ روزہ کی نیت کے ساتھ یہ نیت بھی اضافہ کرے کہ میں قِران یا تمتع کا روزہ رکھتا ہوں اگر یہ اضافہ نہ کیاتو وہ قران یا تمتع کی جگہ جائز نہ ہوگا ۷؎ (۷) ان تین روزوں کا اسی سال کے حج کے مہینوں میں واقع ہونا ۔ پس اگر یہ تین روزے آئندہ سال کے حج کے مہینوں میں رکھے تو جائز نہیں لیکن قران یا تمتع کااحرام حج کے مہینوں میں ہونا شرط نہیںہے بلکہ اگر حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھ لیا اور عمرہ کا پورا طواف یا اس کا اکثر حصہ حج کے مہینوں میں ادا کیا تو قران و تمتع دونوں جائز ہیں ۱؎ (اس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے، مؤلف) (۸) عمرہ و حج دونوں کا مسنون طریقہ پر ادا ہونا، پس اگر غیر مسنون طریقہ پرادا کیا ہو مثلاً قارن نے عمرہ کااحرام طوافِ قدوم کا باندھا ہو تو اس کو یہ روزے رکھنا جائز نہیں ہے اور اس پر دم ہی واجب ہوگا جیساکہ پہلے بیان ہوچکا ہے اور اسی طرح اگر مکہ کا رہنے والا شخص قران یا تمتع کرے تو وہ برائی کا مرتکب ہوگا اور اس پر دمِ جبر واجب ہوگا اور اس کے لئے روزے رکھنا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ تنگدست ہو کہ ہدی کی قیمت پر قادر نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ روزے دمِ شکر کا بدل ہوتے ہیں دمِ جبر کا بدل نہیں ہوسکتے پس ہر ایسے موقع کے لئے یہ کلیہ قاعدہ یا د کرلیجئے ۲؎ (نوٹ) ان روزوں کے متعلق امور مستحبہ شرائط کے ضمن میں بیان ہوچکے ہیں(مؤلف)