عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
(۱) یہ روزے قارن کو عمرہ و حج کا احرام باندھنے کے بعد اور متمتع کو عمرہ کااحرام باندھنے کے بعد رکھنا شرط ہے ۳؎ تاکہ ان کی ادائیگی سبب کے محقق (ثابت) ہونے کے بعد ہو ۴؎ کیونکہ عمرہ کا احرام حج کے احرام کے وجود کا سبب ہے تو یہ روزے وجود سبب کے بعد تعجیلاً ادا ہوئے لہٰذا جائز ہوگئے اور احرامِ عمرہ کے وجود سے پہلے سبب نہیں پایا گیا اس لئے اس سے پہلے ان کا رکھنا جائز نہیں ہے ۵؎؎ پس اگر کسی شخص نے تین روزے رکھنے کے بعد قران کااحرام باندھا تو اس کے یہ روزے بالاجماع جائز نہیں ہوں گے ۶؎ اور اسی طرح متمتع کے لئے بھی بلا خلاف جائز نہیں ہے کہ یہ تین روزے ایامِ حج میں عمرہ کا احرام باندھنے سے پہلے رکھے، رہی یہ بات کہ ایامِ حج میں عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد حج کا احرام باندھنے سے پہلے ان کا رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ تو اس بارے میں ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ جائز ہے خواہ عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد اس نے عمرہ کا طواف کیا ہو یا نہ کیا ہو ۷؎ (اس کی مزید تفصیل اگلے نمبر میں آتی ہے، مؤلف) (۲) یہ تین روزے حج کے مہینوں میں ادا ہوں ۸؎ پس ان روزوں کے جائز و کافی ہونے کے لئے عمرہ کے احرام کا حج کے مہینوں میں موجود ہونا شرط ہے ۹؎ اگر کسی نے حج کے مہینوں سے پہلے عمرہ کا احرام باندھا اور حج کے مہینوں میں یہ تین روزے رکھے تو جائز ہے کیونکہ اس کے عمرہ کا احرام حج کے مہینوں میں موجود ہے اور اگر حج کے مہینوں میں پہلے یہ تین روزے رکھے اس کے بعد عمرہ کا احرام باندھا تو جائز نہیں ہے ۱۰؎ اور اگر کسی نے حج کے مہینوں سے پہلے قران کا احرام باندھا اور روزے رکھے تو یہ روزے جائز نہیں ہیں اور اگر اس نے احرام ثابت ہونے کے بعد حج کے مہینے شروع ہونے پر یہ روزے رکھے تو جائز ہے ۱۱؎(یعنی اگر قران کااحرام حج کے مہینوں سے پہلے باندھا اور حج کے مہینوں میں