عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور یہ بات اہلِ مکہ میں بھی پائی جاتی ہے ۲؎ خلاصہ یہ ہے کہ طوافِ صدر اہلِ مکہ و اہلِ حرم یعنی اہلِ منیٰ وغیرہ واہلِ حل مثلاً وادی و خلیص و جدہ وحدّہ کے رہنے والے اور آفاقیوں کے مواقیتِ مقررہ کے رہنے والوں پر واجب نہیں ہے اور اگر آفاقی حاجی مکہ مکرمہ میں اقامت کی نیت کرلے تو یہ طواف اس سے ساقط نہیں ہوتا خواہ نیتِ اقامت نفرِ اول (۱۲ ذی الحجہ) کے بعد کرے یا اس سے پہلے کرلے اگر چہ اس کی مدتِ اقامت کئی سال ہو لیکن اگر مکہ یا اس کے اردگرد یعنی حدودِ حرم یا حدودِ حل میں میقات کے اندر نفرِ اول یعنی ۱۲ ذی الحجہ سے پہلے وطن بناکر رہنے کی نیت کرلی تو اس سے طوافِ صدرساقط ہوجاتا ہے ۳؎ پس اگر کسی آفاقی میں مکہ مکرمہ نے ہمیشہ رہنے یعنی اس کو وطن بنانے کی نیت کرلی اور اس کو اپنا گھر بنالیا تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اس نے نفرِ اول یعنی ۱۲؍ذی الحجہ کو منیٰ سے واپسی سے پہلے یہ نیت کی ہو ، اس صورت میں بالاجماع اس سے طوافِ صدر ساقط ہوجائے گا یعنی اس پر یہ طواف واجب نہیں ہوگا۔ دوسرے یہ کہ نفرِ اول کو منیٰ سے واپسی کے بعد یہ نیت کی ہو، اس صورت میں امام ابو حنیفہؒ وامام محمد ؒ کے نزدیک اس سے طوافِ صدر ساقط نہیں ہوگایعنی اس پر واجب ہوگا اور امام ابو یوسف رحمہ اﷲ نے کہا ہے کہ اس سے طوافِ صدر ساقط ہوجائے گا لیکن اگر اس نے طوافِ صدر شروع کردیا تو ان کے نزدیک بھی ساقط نہیں ہوگا کیونکہ اب وہ شروع کردینے کی وجہ سے اس پر واجب ہوگیا ہے اس لئے اب اس کو ترک کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اب اس کو پورا کرنا واجب ہے ۴؎۔اور اگر کسی شخص نے نفرِ اول یعنی ۱۲؍ذی الحجہ کو منیٰ سے روانگی سے پہلے مکہ مکرمہ کو وطن بنانے کی نیت کرلی اور پھر اس کو مکہ مکرمہ سے باہر جانا ظاہر ہواتو اب اس پر طو افِ