عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کاایمان اولیا صحابہ کے ایمان جیسا نہیں اور اولیاء اورصحابہ کاایمان انبیاء علیہم السلام کے ایمان جیسا نہیں کیونکہ وہ ایمان طاعات کے باعث کمال کے بلند درجے تک پہنچا ہوا ہوتا ہوتاہے۔ اسی طرح شدت وضعف یقین کے اعتبار سے جو کہ کیف کے عوارض سے ہے ہر ایک دوسرے کے ایمان میں تفاوت ہے اگرچہ نفس ایمان میں سب مشترک ہیں۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہم جو ایمان میں کمی وبیشی کے قائل ہیں، وہ اعمال ِصالحہ کو داخل ِایمان سمجھتے ہیں سو اُن کے نزدیک بھی وہ کامل ایمان کا جز ہیں یعنی جس کے اعمال ترک ہوں گے اُس کا ایمان کامل نہ رہے گا، ہاں نفس ایمان باقی رہے گا کیونکہ اعما ل حسنہ کو نفس ایمان کا جزو قرار نہیں دیتے۔ پس یہ لفظی اختلاف ہے ورنہ کوئی فرق نہیں ہے، شک کے طور پریوںنہ کہے کہ میں مومن ہوں انشاء اللہ بلکہ انشاء اللہ کو ترک کرے۔ امام اعظم علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں اَنَا مُؤْمِنٌ حَقًّا (تحقیق میں مومن ہوں) اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ انے جو یہ فرمایااَنَا مُؤْمِنٌ اِنشَآء اللّٰہُ تَعَالٰی ’’میں مومن ہوں انشاء اللہ تعالیٰ‘‘ وہ بااعتبار انجام اور خاتمے کے ہے۔ پس یہ بھی کوئی اختلاف نہیں بلکہ لفظی بحث ہے ورنہ مناسب یہی ہے کہ جب د ل سے تصدیق کی اور زبان سے اقرار کیا تو قطعی مومن ہوگیا اب شک کرنا اور انشاء اللہ کہنا ٹھیک نہیں ہے اگرچہ اس نیت سے کہے کہ خاتمے کا حال اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے یامتبرک سمجھ کر کہے گو یہ درست ہے تاہم نہ کہنا اولیٰ ہے کیونکہ سننے والے کو اس کاشک ثابت ہوگا اوراگر واقعی میں اس کہنے والے کو اپنے ایمان میں شک ہے تو ہ کفر ہے نعوذ باللہ منہ۔ ایمان اوراسلا م ایک ہی چیز ہے۔ شرع شریف میں جس کو مؤمن کہتے ہیں اس کو مسلمان بھی کہتے ہیں گولغوی معنی کے اعتبار سے کبھی دونوں میں فرق بھی ہوتا ہے کہ تصدیق