عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۳) اور اگر کسی نے فرض و نفل حج کی اکٹھی نیت سے احرام باندھا تو وہ امام محمدؒ کے نزدیک فرض کا احرام ہوگا اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک بھی اصح روایت میں یہی حکم ہے جیسا کہ بحر میں ہے لیکن کافی میں ہے کہ اگر حج فرض اور نفل کے احرام کی اکٹھی نیت کی تو وہ بالاتفاق فرض حج کا احرام ہے، امام ابو یوسفؒ کے نزدیک اس لئے کہ نفل کی نیت کے تعین کی ضرورت نہیں ہے پس وہ لغو ہوگئی اور امام محمدؒ کے نزدیک اس لئے کہ تعارض کی وجہ سے دونوں نیتیں باطل ہوگئیں اور مطلق حج کی نیت باقی رہ گئی۔ پس اس کو فرض کی طرف پھیرنا متعین ہوگیا۔ ۶؎ (۴) اور اگر کسی نے آدھے نسک کی نیت کی تو اس کو نسکِ کامل ادا کرنا لازم ہوگا اس لئے کہ یہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوسکتا اور یہ مبہم احرام ہوگا اور مبہم کا حکم پہلے بیان ہوچکا ہے (اسی طرح نصف حج کی نیت کی صورت میں کامل حج اور نصف عمرہ کی نیت کی صورت میں کامل عمرہ ادا کرنا واجب ہوگا، مؤلف) اور حج کی نیت اس طرح پر کی کہ وہ اس کے لئے طوافِ زیارت اور وقوفِ عرفات نہیں کرے گا تو اس پر پورا حج واجب ہوگا یعنی اس کو طوافِ زیارت اور وقوفِ عرفات کرنا لازمی ہوگا کیونکہ یہ دونوں حج کے رکن ہیں اور اسی طرح اس پر تمام واجبات کو ادا کرنا اور تمام ممنوعات سے بچنا لازم ہے اور وہ مطلق نیت کا احرام ہوگا اس کا حکم بھی پہلے گزر چکا ہے۔ ۷؎ (۵) اگر کسی نے اس گمان پر حج کا احرام باندھا کہ اس پر حج فرض ہے یا اس کے ذمہ حجِ نذر ہے پھر اس کے گمان کے خلاف ظاہر ہوا یعنی ظاہر ہوا کہ اس پر حج فرض یا حج نذر نہیں ہے تو اس کو شروع کردینے کی وجہ سے پورا کرنا واجب ہے اور اگر اس کا حج فوت ہوجائے تو عمرہ کے افعال ادا کرکے احرام سے باہر ہوجائے اور اسی طرح اگر اس کو فاسد