عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور کام میں خرچ کردیا) یہاں تک کہ وہ فقیر ہوگیا تو باتفاقِ علمااس سے حج فرض ساقط نہیں ہوگا بلکہ اس پر حج فرض ہوکر اس کے ذمہ بطورِ قرض باقی رہے گا اور اگر اس زمانہ کے علاوہ اور دنوں میں اس قدر مال کا مالک ہوا جس سے حج ہوسکتا ہے اور اس مال کو کسی اور کام میں خرچ کردیا تو اس پر حج فرض نہیں ہے ۶؎ لیکن اگر حج ساقط کرنے کے حیلہ کے قصد سے یعنی اپنے اوپر سے حج کو ٹالنے کے لئے اس مال کو خرچ کردیا تو اس میں اختلاف ہے۔ امام محمدؒ کے نزدیک مکروہ ہے اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک کوئی مضائقہ نہیں مباح ہے ۷؎ پس اگر حج کے مہینوں سے پہلے یا اپنے شہر کے لوگوں کے حج کے لئے مکہ مکرمہ روانہ ہونے کے زمانہ سے پہلے شروع سال میں زادو راحلہ پر قادر ہوگیا تو اس کو اختیار ہے جہاں چاہے اس کو خرچ کرسکتا ہے کیونکہ اہلِ شہر کے حج کے لئے نکلنے سے پہلے اس کو حج کے لئے تیار ہونا اور اس کا سامان تیار کرنا لازمی نہیں ہے کیونکہ وقت سے پہلے اس پر حج فرض نہیں ہوا اور جس پر حج فرض نہیں ہوا اس کو حج کے لئے تیار ہونابھی لازم نہیں ہے پس اس کو اپنا مال جہاں چاہے خرچ کرنا جائز ہے اور جب اس نے وہ مال خرچ کردیا اس کے بعد اس کے شہر کے لوگ حج کے لئے روانہ ہوئے تو اس شخص پر حج فرض نہیں ہے لیکن اگر حاجیوں کی روانگی کاوقت آگیا اور مال اس کے قبضہ میں ہے تو اس کو جائز نہیں ہے کہ اس مال کو حج کے علاوہ کسی اور کام میں خرچ کرے یہ حکم اُن علما کے قول کی بنا پر ہے جو کہتے ہیں کہ حج کرنا علی الفور واجب ہے اس لئے کہ جب اس کے شہر والوں کے حج پر روانہ ہونے کا وقت آگیا تو استطاعت موجود ہونے کی وجہ سے اس پر حج فرض ہوگیا اور اس کو حج کے لئے تیار ہونا اور سامان تیار کرنا لازم ہوگیا پس اس کو وہ مال کسی اور کام میں خرچ کرنا