عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علم ہو یا نہ ہو (کیونکہ دارالاسلام میں رہنے والے مسلمان کے لئے فرائضِ اسلام کا علم نہ ہونا شرط نہیں ہے بلکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ فرائضِ اسلام کا علم فورًا حاصل کرے ،مؤلف) خواہ وہ شخص دارالاسلام میں پیدا ہوکر بالغ ہوا ہو یا بالغ ہونے کے بعد اسلام لایا ہو یا باہر سے آکر آباد ہوگیا ہو اس حکم میں یہ سب برابر ہیں پس ایسے شخص کے حق میں حکمی طور پر یہ علم ثابت ہوجائے گا (مثلاً کوئی ذمی کافر اسلام لے آیا تواس کے لئے حکمی طور پر یہ علم ثابت ہوجائے گا ۱؎ یعنی اگر کوئی کافر شخص دارالاسلام میں رہتا تھا پھر وہ وہیں پر اسلام لے آیا وہ معذور نہیں سمجھا جائے گا اور اس کے لئے علمِ مذکور حکماً ثابت ہوجائے گا، مؤلف) اور جو مسلمان دارالحرب میں رہتا ہے اگر اس کو دومرد مستور الحال یا ایک مرد اور دو عورتیں مستور الحال یا ایک مرد عادل حج کی فرضیت کی خبر دیدے تو اس کے لئے حج کی فرضیت کا علم ثابت ہوجائے گا اور اس پر حج فرض ہوجائے گا ۲ ؎ اور ایک مرد خبر دینے والے کے لئے عادل ہونے کی شرط امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہے ۳ ؎ اورظاہر ہے کہ عادل ہونے کی شرط ایک خبر دینے والے کے ساتھ ہے دو مرد یا ایک مر د اور دو عورتیں ہونے کی صورت میں عدالت شرط نہیں ہے اُن کا مستور الحال ہونا بھی کافی ہے اور اسی لئے نہر الفائق میں کہا ہے کہ شہادت کا ایک ضابطہ کافی ہے خواہ عددہو یا عدالت ۴ ؎ اور صاحبین کے نزدیک اُن کا عادل اور بالغ اور آزاد ہونا اس کی خبر دینے کے لئے شر ط نہیں ہے ۵ ؎ (۴) اگر دارالحرب میں رہنے والے کسی مسلمان نے حج کے وجوب کا علم ہونے سے پہلے حج ادا کیا تو قطبی نے اپنی مناسک میں بحث کرتے ہوئے ذکر کیا کہ وہ فرض کی جگہ ادا نہیں ہوگا اور ہم اس میں یہ فرق کرتے ہیں کہ وجوب کا علم ہونا حج کے فرض واقع ہونے