عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جواب مل گیا کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حق میں حج کو فوت ہونے دینا متحقق نہیں ہے جو کہ فوراً ادا کرنے کا سبب ہے کیونکہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ آپ زندہ تشریف فرمارہیں گے یہاں تک کہ حج کو ادا فرمالیں گے اور لوگوں کو حج کے مناسک پوری طرح سکھادیں گے اور ان کی تبلیغ فرمادیں گے ۱ ؎ اور امام ابو یوسفؒ کی دلیل وہ حدیث ہے جو امام احمد و ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کی ہے کہ رسو لﷺ نے فرمایا کہ جو حج کا ارادہ کرے اس کو جلدی کرنا لازم ہے اس لئے کہ کبھی آدمی بیمار ہوجاتا ہے یا راحلہ گُم ہوجاتا ہے یا کوئی ضروری حاجت پیش آجاتی ہے کذافی العینی شرح الکنز ۲ ؎ اور ان ائمہ کا یہ اختلاف اس صورت میں ہے جبکہ اس کو اپنی سلامتی کا گمان غالب ہو اور اگر بڑھاپے یا مرض کی وجہ سے موت کا گمان غالب ہوتو بالاجماع وجوب کا وقت تنگ ہوجاتا ہے ۳؎ (یعنی بالاجماع فوراً ادا نہ کرنا واجب ہوجاتا ہے، مؤلف) اور خلاف کا فائدہ گنہگار ہونے میں ظاہر ہوتا ہے یہاں تک کہ جب حج فرض ہوجائے اور وہ فوراً ادا نہ کرے تو جو فقہا فوراً حج ادا کرنے کو واجب کہتے ہیں ان کے نزدیک وہ فاسق ہوگا اور اس کی گواہی قبول نہیں ہوگی ۴ ؎ اور قنیہ میں ہے کہ یہی مختار ہے پس بلاعذر پہلے سال سے تاخیر کرنے پر فاسق ہوجائے گا اور اس کی گواہی رد کردی جائے گی لیکن جب وہ حج ادا کردے گا خواہ اپنی عمر کے آخر میں ہی ادا کرے تو بلا خلاف اس پر وہ گناہ باقی نہیں رہے گا ۵ ؎ اور ان حضرات کے نزدیک گنہگار اس وقت ہوگا جبکہ بلاعذر پہلے سال سے تاخیر کرے لیکن اگر عذر کی وجہ سے تاخیر ہوئی تو وہ گنہگار نہیں ہوگا ۶ ؎ اور جو فقہا حج کی ادائیگی کو مہلت کے ساتھ واجب قراردیتے ہیں ان کے نزدیک اگر وجوب کے دوسرے یا تیسرے سال میں ادا کیاتو وہ ادا کرنے والا ہی ہوگا قضا کرنیوالا نہیں ہوگا۔ (اس کا حج تاخیر کے ساتھ بھی ادا ہی کہلائے گا قضا نہیں