عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسرے روز اسی وقت جب پہلے روز اس کو حدث ہوا تھا نماز میں داخل ہوا اور اس کو یاد آیا کہ یہ وقت مسح کے ختم ہو جانے کا ہے لیکن جانتا ہے کہ اس جنگل میں پانی نہیں ہے تو اس اصح قول کی بنا پر نماز پوری کرلے) (اس قول کی بنا پر صحیح یہ ہے کہ نئے سرے سے جبیرہ کی طرح کل یا اکثر پائوں کا مسح کرے۔مولف) اور بعض مشائخ سے یہ منقول ہے کہ نماز فاسد ہو جائے گی اور یہی شبہ ہے (یعنی روایت و فہم کے مناسب ہے کیوں کہ مدت گذر جانے سے حدث نے پائوں میں سرایت کی اور پانی کا نہ ہونا مانع سرایت کا نہیں، اس لئے ان کے نزدیک تیمم کرے اور نماز پڑھے جس طرح ہر وہ شخص کہ اس کے اعضائے وضو میں کچھ شک باقی رہا اور پانی نہیں ہے جو اس کو دھوئے تو اس کو تیمم کرنا چاہئے، کذافی الحطاوی وغیرہ) اگر دونوں موزے نکالے یا ایک موزہ نکالا اور وہ باووضو ہے تو صرف دونوں پائوں دھونا اس پر واجب ہے نئے سرے سے سارا وضو کرنے کی ضرورت نہیں اور یہی حکم ہے اس صورت میں مسح کی مدت گذر جائے۔ (اور پورا وضو کرلینا مستحب ہے) جس شخص کو اپنے موزے نکالنے میں یہ خوف ہو کہ اس کے پائوں سردی کی وجہ سے رہ جائیں گے تو موزہ پٹی کے حکم میں ہو جائے گا پس اس کو مسح جائز ہے اگر چہ مدت دراز ہو جائے لیکن اوپر نچے اغل بغل اور ایڑیوں پر یعنی پورے یا اکثر موزے کا مسح کریجیسے ان لکڑیوں پر مسح جائز ہو جاتا ہے جو ٹوٹی ہڈی پر بندھی جاتی ہیں۔ (اس میں بھی اختلاف ہے جیسا کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں ہے اور تیمم کرنے کو ترجیح معلوم ہوتی ہے۔) اکثر پائوں (یعنی آدھے سے زیادہ) نکل آئے تو پورے پائوں کے نکل آنے کے حکم میں ہے یہی صحیح ہے۔ اگر موزہ چوڑا ہے جب پائوں اٹھاتا ہے تو ایڑی موزہ سے نکل جاتی ہے اور جب پائوں رکھتا ہے تو پھر اپنی جگہ پر آجاتی ہے تو اس پر مسح جائز ہے، جس کے