عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
غوطہ خوروں نے اس کی تلاش میں کوشش کی اور کنوئیں کا تمام پانی بھی نکلوایا مگر یہ انگشترئ مبارک نہ ملی۔ اس وقت اس کنوئیں کا نام بیرِ خاتم مشہور ہوگیا ۴؎ اور اس انگشترئ مبارک کے گم ہوجانے کے وجہ سے اس روز سے حضرت عثمان غنی ؓ کی خلافت میں فتنہ وآزمائش واختلاف اور جھگڑے رونماہوگئے ۵؎ شاید آنحضرت ﷺ کی خاتمِ مبارک میں اسی طرح کا سرّپنہاں تھا جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری کے کھوجانے سے ان کی مملکت میں خلل واقع ہوا تھا اور بعض نے کہا کہ وہ کنواں دوسرا تھا جو آنحضرت ﷺ کے بعض صدقات میں سے تھا اور اس میں حضرت عثمان ؓ کا حصہ تھا جو کہ بنی نضیر کے اموال میں سے خاص اُن کے لئے مقرر فرمایا تھا اور دوسرا مال عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے چالیس ہزار دینار میں خریدکر امہا ت المؤمنین وغیر ہن پر تصدق کردیا تھا اور اس مال کو بھی بیرِ اریس کا نام دیتے تھے واﷲ اعلم ۱؎۔ اس کنوئیں کا پانی نہایت شیریں ولطیف تھا ، متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنالعابِ دہن مبارک اس میں ڈالا تھا جس کی وجہ سے اس کا پانی اتنا شیریں ولطیف وپاکیزہ ہوگیا ورنہ اس سے پہلے میٹھا نہیں تھا ۔ کہتے ہیں کہ اس کے پانی میں بھوک پیاس اور بیماری وغیرہ جس چیز کے لئے پیا جائے اس کے لئے شفا ہے بہیقی نے روایت کی ہے کہ انس بن مالکؓ جب قبا میں تشریف لائے تو اس کنوئیں کا پتہ دریافت کیا ایک شخص ان کو چاہ اریس کے پاس لایا ، حضرت انس ؓ نے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ اس کنوئیں کے پاس تشریف لائے اور ایک شخص سے جو کہ پانی نکال رہا تھا پانی کا ڈول طلب فرمایا اور نوش فرمایا، باقی پانی میں ا پنا لعابِ دہن مبارک ڈال کر کنوئیں میں ڈال دیاپھر آپ نے ایک طرف جاکر پیشاب کیااور اس کنوئیں پر آکر وضو فرمایا اور موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی اور بعض نے اس واقعہ کو