عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے حلال ہوجانے کے بعد جس چیز کا احرام باندھا تھا اس کی قضا واجب ہونے کے بارے میں تین صورتوں کا بیان ہوگا کیونکہ اس کا احرام یا صرف حج کا ہوگا، یا صرف عمرہ کا ، یا دونوں کا اکٹھا ہوگا ۴؎ (۲) پس جو محصر حدودِ حرم میں ہدی ذبح کرکے احرام سے باہر ہوا ہے اگر اس نے صرف حج کااحرام باندھا تھا اور احصار زائل ہونے کے وقت حج کا زمانہ باقی ہے اور اس کاارادہ اسی سال حج کرنے کا ہے تو وہ اب حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرلے اور اس کے لئے قضا کی نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس پر عمرہ کرنا بھی واجب نہیں ہے کیونکہ وہ اس شخص کی مانند نہیں ہے جس کا حج فوت ہوگیا ہو، امام محمدؒ نے کتا ب الاصل میں اسی طرح ذکر کیا ہے اور ابن ملیکؒ نے امام ابو یوسفؒ اور انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے ذکر کیا ہے کہ اس پر پہلا احرام ترک کرنے کی وجہ سے دم واجب ہوگا ۵؎ اور اگر اس ( احصار کے ) سال حج نہ کرسکا اور سال بدل گیا ( دوسراسال شروع ہوگیا ) تو اس پر ایک حج اورایک عمرہ قضا کرناواجب ہے پس جب آئندہ سال ان کو قضا کرے تو اختیار ہے کہ دونوں کو اکٹھا ادا کرے یعنی قران کرے یا دونوں کو علیحدہ علیحدہ ( مفرد) ادا کرے اور اس پر قضا کی نیت کرنا واجب ہے پس وہ حج قضا کی نیت کئے بغیر اس سے ساقط نہیں ہوگا اور امام حسنؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے روایت کی ہے کہ دونوں مذکورہ صورتوں میں ایک حج اور ایک عمرہ قضاکرنا اور ان دونوں میں قضا کی نیت کرنا اس پر واجب ہے اور یہی امام زفرؒ کا قول ہے اس کو قاضی نے اپنی شرح مختصر الطحاوی میں ذکر کیاہے اور اسی تفصیل اور اختلاف پر وہ صورت بھی ہے جب کہ کسی عورت نے نفلی حج کا احرام اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر باندھا پھر اس کے خاوندنے اس کو حج سے روک دیا اور اس کو احرام سے