عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
المناسک نے منسک الکبیر میں کہا ہے کہ بحر الزاخر میں اس مسئلہ کو آمر آقا کے بارے میں بیان کیا ہے اور صاحب بدائع وغیرہ نے اس کو اجازت دینے والے آقا کے بارے میں بیان کیا ہے اور ان دونوں میں فرق کی صورت میں جب آمر پر ہدی کا بھیجنا واجب نہیں ہے تو اجا زت دینا بدرجہ اولیٰ آقا پر ہدی بھیجنا واجب ہونے کا باعث نہیں ہوگا جیسا کہ پوشیدہ نہیں ہے پس اکثر منقولات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آقا پر ہدی کاواجب نہ ہونا ہی معتبر ہے بلکہ خزانۃ الاکمل میں جو مطلق وجوب منقول ہے اسکے اطلاق کو اس پر محمول کیا جانا متعین ہوگا کہ جب آقا اپنے غلام کو آزاد کردے تو اب آقا پر ہدی بھیجنا واجب ہوگا، رہی قاضی کی تعلیل جو کہ الباجی المالکی ہے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ اس قاعدہ مالکیہ پر مبنی ہے کہ مملوک( غلام ) مالک کی تملیک سے مالک ہوجاتا ہے پس اس کا اس کی طرف سے ادا کرنا بھی اسی طرح پر ہے البتہ یہ کہنا کہ آقا پر ہدی بھیجنا مستحب ہے تو یہ صراحتاً کہیں نہیں دیکھا گیا پس اس کی ذمہ داری اس کے ناقل پر ہے ۴؎ اور اگر اس کے آقا نے احرام باندھنے کی اجازت دینے کے بعد اس کو آزاد کردیا تو آقا پر ہدی کا بھیجنا واجب ہوگا جیسا کہ اوپر منقولات سے بیان ہوچکا ہے اگرچہ معقول کے اعتبار سے کوئی وجہ ظاہر نہیں ہوئی ۵؎ (۸) اورا گر غلام یا لونڈی نے اپنے آقا کی اجازت سے احرام باندھا پھر آقا نے اس کو بیچ دیاتو یہ بیع جائز ہے اور ہمارے تینوں اماموں کے قول میں خریدار کے لئے بلاکراہت جائز ہے کہ وہ اس کو روک دے اور اس کا احرام کھلوادے ۶؎ اور احرام میں ہونے کے نقص کی وجہ سے اس کو اس کے واپس کردینے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ اس کا ازالہ اس کااحرام کھلواکر کیا جاسکتا ہے ۷؎ پس اگر کسی شخص نے ایسی لونڈی خریدی جو احرام کی حالت میں ہے اگرچہ اس نے بیچنے والے کی اجازت سے احرام باندھا ہوتو اس ( خریدار) کے لئے