عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱۱)اگر کسی محرم نے کسی حلال شخص کو شکار خریدنے کے لئے وکیل بنایا پھر اس وکیل نے شکار خریدا تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ بیع جائز ہے کیونکہ یہ فعل مؤکل کی طرف منسوب نہیں ہوگا اور صاحبین کے نزدیک یہ بیع باطل ہے ۴؎ اور اگر کسی حلال شخص نے حلال شخص کو شکار بیچنے یاخریدنے کے لئے وکیل بنایا پھر مؤکل نے احرام باندھ لیا تب بھی امام ابو حنیفہؒ کے قول پر قیاس کرتے ہوئے یہ بیع جائزہے اگرچہ مؤکل نے خریدا ر کے قبضہ کرنے سے پہلے احرام باندھا ہو اور صاحبین کے قول پر یہ بیع باطل ہے ۵؎ (۱۲) اگر حلال شخص نے کسی حلال شخص کے شکار کو غصب کرلیا پھر اس غاصب نے اس حال میں احرام باندھ لیا کہ وہ شکار اس کے ہاتھ میں ہے تو اس پر اس جانور کا چھوڑدینا اورشکار کے مالک یعنی مغصوب منہ کو شکار کی قیمت کا تاوان دینا واجب ہے پس اگر اس نے ایسا نہیں کیا یعنی شکار کو نہ چھوڑا بلکہ شکار کے مالک ہی کو واپس کردیا تو وہ ضمان( تاوان) سے بَری ہوجائے گا لیکن جزا سے بری نہیں ہوگا ( یعنی جزاا س پرواجب رہے گی ) اور اس کو ایسا کرنا بُرا ہے ۶؎ اور اگر مغصوب منہ ( جس سے چھینا گیا ہے ) نے احرام باندھ لیا پھر غاصب نے اس کو شکار واپس کردیاتو ان دونوں میں سے ہر ایک پر جزا واجب ہوگی لیکن اگر وہ شکار مغصوب منہ کے ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے ہلاک اور ضائع ہوگیا تو اس پر جزا واجب نہیں ہوگی صرف غاصب پر واجب ہوگی اور اگر اس کو اس کے مالک یعنی مغصوب منہ نے حلال ہونے کی حالت میں شکار کیا اور اس کو حرم میں داخل کیا تو امام ابو حنیفہؒ کے قول کی بِنا پر اس کے غاصب پر ضمان واجب ہوگا اس لئے کہ اب وہ اس کے مالک کو واپس نہیں کرے گاصاحبین کااس میںاختلاف ہے ۷؎