عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱) جو مجنوں حالتِ جنوں میں خود احرام باندھے تو احرام کے منعقد ہونے وغیرہ میں اس کا حکم بے سمجھ چھوٹے لڑکے کی مانند ہے یعنی اگروہ خود احرام باندھے تو صحیح نہیں ہے اس لئے کہ وہ نیت کی عقل نہیں رکھتا اور تلبیہ کے الفاظ نہیںکہہ سکتا اسی طرح طواف کی نیت بھی شرط ہے اور وہ اس سے صحیح نہیں ہوتی اس لئے اس کی طرف سے اس کا ولی احرام باندھے اور بہتر ہے کہ پہلے سے اس کے سلے ہوئے کپڑے اتاردیئے جائیں اور اس کو ایک چادر تہبند کی طرح باندھ دی جائے اور دوسری چادر اڑھادی جائے جب اس کا ولی اس کی طرف سے احرام کی نیت کرکے تلبیہ کہہ لے گا تووہ مجنوں محرم ہوجائے گا ، اب وہ اس کو مخطوراتِ احرام سے بچاتا رہے پھر بھی اگر مجنوں سے کوئی مخطورسرزدہوگیاتو بے سمجھ چھوٹے بچے کی طرح نہ اس پر کوئی جزا واجب ہوگی اور نہ اس کے ولی پر واجب ہوگی اس کا ولی اس کو ساتھ لے کر تمام احکام حج ادا کرائے اورجن افعال میں نیت کی ضرورت ہے ان میں اس کی طرف سے نیت کرے ۱؎ (۲) اگر کسی شخص نے عقل کی حالت میں فرض حج کا احرام خود باندھا اس کے بعد وہ مجنوں ہوگیا تو اس کا حکم اس بے ہوش کی طرح ہے جس کو احرام باندھنے کے بعد ہی بے ہوشی طاری ہوگئی ہو پس اگر اس کے رفقا نے اس کو مشاہد ِ حج میں ساتھ لے کر وقوفِ وطوافِ زیارت وغیرہ افعالِ حج اداکرائے تو اس کافرض حج ادا ہوجائے گا بشرطیکہ طواف ِ زیارت میں اس کی طرف سے اس کے رفیق نے نیت کرلی ہو، اگرچہ کئی سال کے بعد اس کا جنون زائل ہواہوا ور یہ مجنوں اگر احرام کی حالت میں کسی مخطور کا مرتکب ہوگا مثلاً شکار کرے گا یا خوشبو لگائے گا یا سلا ہوا لباس پہنے گایا جماع کرے گا تواس پر وہی جزا واجب ہوگی جو عقل والے پر واجب ہوتی ہے البتہ جزا کی ادائیگی اس وقت لازم ہوگی جب