عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عاجز ہو تو وہ اس کی مدد کریں، اگر ان اوصاف والا شخص عالم باعمل مل جائے تو بہت ہی اچھا ہے تاکہ ہر قسم کے مسائل خصوصاً احکامِ حج میں مدد ملتی رہے اور اس کی نیک صحبت سے فیضیاب ہوتا رہے۔ رفیق سفر کا اجنبی ہونا رشتہ دار ہونے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ سفر میں اکثر طبیعتوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے آپس میں کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے جس سے قطع تعلق تک نوبت پہنچ جاتی ہے ، اگر رشتہ دار کیساتھ ایسی نوبت آئے گی توقطع رحمی لازم آئے گی جو سخت گناہ ہے بخلاف اجنبی کے کیونکہ اس سے سہولت کے ساتھ علیحدگی ہوسکتی ہے البتہ اگر اپنے اوپر یا رشتہ دار رفیقِ سفر پر اس بات کا اطمینان ہوکہ ایسی نوبت نہیں آئے گی تو مضائقہ نہیں ۲؎ امیرِ قافلہ بنانا : جب چند آدمی مل کر سفر کریں تو اپنے قافلہ میں کسی دیندار ،سمجھدار، ہوشیار ،تجربہ کار،صائب الرائے ، متحمل مزاج(بردبار) جفاکش ، متواضع شخص کو امیر قافلہ بنالینا چاہئے اور سب کو اس کی اطاعت کرنی چاہئے قریشی ہوتو افضل ہے۔ حدیث شریف میں ہے اس کے متعلق نبی کریمﷺ کاارشاد گرامی ہے :’’عن ابی سعید الخدریؓ ان رسول اﷲ ﷺ قَالَ اِذا کَانَ ثَلَاثَۃ’‘ فِیْ سَفَرٍ فَلْیُؤَ مِّرُوْ اَحَدَ ھُمْ رواہ ابو داؤد، المشکوٰۃ ‘‘ یعنی ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جب تین آدمی بھی سفر میں ہوں تو ان کو چاہئے کہ اپنے میں سے ایک آدمی کو امیر قافلہ بنالیں ، اس کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ حضور اقدس ﷺ کا عام معمول تھا کہ جب کوئی قافلہ روانہ ہوتا تو ان میں سے کسی ایک کو امیر بنادیتے ۔ پھر جوشخص امیر بنے اس کو بھی چاہئے کہ امارت کے حقوق وآداب کی رعایت کرے، رفقا کے احوال کی خبر گیری کرنا، ان کے سامان کی نگرانی کے اسباب مہیا کرنا، ان کو آرام وراحت پہنچانا امیر کی ذمہ داری