عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
باندھا یا اس کے برعکس پہلے حج کا احرام آمر کی طرف سے اور دوسرے حج کااحرام اپنی طرف سے باندھا تو جب تک وہ آمر کے احرام کے علاوہ دوسرے احرام کو ترک نہیں کرے گا آمر کا حج جائز نہیں ہوگا اور وہ مخالف ہوگا۔ (۴) پس جو احرامِ حج اپنی طرف سے باندھا ہے اگر اس کو ترک کردیا تو دوسرا احرام آمر کی طرف سے جائز ہوجائے گا اوروہ ایسا ہوجائے گا گویا کہ اس نے شروع سے ہی اس ایک حج کا احرام باندھا ہے ۶؎ (۵) منسک الکبیر میں کہا ہے کہ اس مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ اس نے دونوں حج کااحرام علی التعاقب( آگے پیچھے ) باندھا ہو اور ان دونوں میں سے پہلے حج کی آمر کی طرف سے نیت کی ہو لیکن اگر پہلے حج کی نیت اپنی طرف سے کی تو یہ سب کے نزدیک جائز نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ اس صورت میں پہلے حج کا ترک کرنا ممکن نہیں ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں ہے، اہلِ عقل کے نزدیک یہ بحث اچھی اور یہ تفصیل عمدہے پھر کہا ہے کہ اگر اس نے دو حج کا احرام ایک ساتھ باندھا تو امام ابو یوسف وامام محمدرحمہااﷲ کے نزدیک اس کا جائز ہونا متصور نہیں ہے امام ابویوسفؒ کے نزدیک اس لئے کہ دوسرا احرام باندھتے ہی ان میں سے ایک احرام بلا مہلت ترک ہوجاتا ہے پس ان کے قول پر ترک ہونے سے قبل یہ متعین نہیں کرسکتے کہ کونسا ترک ہوا ہے اور امام محمدؒ کے نزدیک اس لئے کہ ان میں سے صرف ایک کے لئے احرام منعقد ہوتا ہے دوسرے کے لئے شروع سے احرام منعقد ہی نہیں ہوتا لیکن امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ممکن ہے کہ اس کو جائز کہاجائے اس لئے کہ ترک سے قبل یہ متعین نہیں کیا جاسکتا کہ جو ترک ہوا ہے وہ مامور کا اپنا حج ہے کیونکہ امام صاحبؒ کے نزدیک وہ فوراً اسی وقت ترک نہیں ہوتا جیسا کہ پہلے (جمع بین النسکین کے