عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۲)پس اگر کسی عاجز شخص نے کسی آدمی سے کہا کہ میں تجھ کو اجرت پر مقرر کرتا ہوں کہ تو میرے طرف سے حج کردے تو ہمارے فقہا کے نزدیک اس کو اجر ت پر مقرر کرنا بالاجماع جائز نہیں ہے اور امام ابو حنیفہؒ سے کتاب الاصل کی روایت کے مطابق اس کا حج اس شخص کی طرف سے جائز ہے جس کی طرف سے اس نے حج کیا ہے یہی مذہب ہے اور یہی ظاہر الروایت ہے اور حج کرنے والے شخص کو نفقہ مثل دیا جائے گا اس لئے کہ جب اجارہ باطل ہوگیا تو صرف حج اداکرنے کا امر باقی رہ گیا پس اس کے لئے نفقہ مثل یعنی آمدورفت کا خرچہ ملے اور اس نفقہ کا عوض (بدلہ) کے طریق پر مستحق نہیں ہوگا بلکہ کفایت ( کافی ہوجانے ) کے طریق پر ہوگااس لئے کہ اس نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے فارغ کردیا ہے جس سے یہ مستا جر ( آمر ) منتفع ہورہا ہے اور لباب المناسک و درمختار میں جو مذکور ہے کہ اس کا حج اجرت پر حج کرانے والے کی طرف سے جائز نہیں ہے یہ ظاہر الروایت کے خلاف ہے پس اس کا حج اجرت پر حج کرانے والے کی طرف سے فرض کی جگہ اداہوجائے گا اور اجرت پر حج کرنے والے کو اُجرت کی بجائے نفقہ مثل ( یعنی اوسط خرچ کے مطابق) ملے گا اور جو اجرت میں دی ہوئی رقم نفقہ مثل سے زائد ہوگی وہ اس کے وارثوں کو لوٹائی جائے گی لیکن اگر ورثہ تبرع ( صدقہ) کرنے کے اہل ہوں اور وہ اس زائد کو اس شخص کو تبرع (صدقہ ) کردیں تو اس کے لئے جائز ہے، یا مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ زائد رقم حج کرنے والے کے لئے ہے تب بھی جائز ہے خواہ میت نے حج کرنے کے لئے کسی شخص کو معین کیا ہو یا نہ کیا ہو اور ہمارے (بعض ) مشائخ نے کہا ہے کہ اگر میت نے اپنی طرف سے حج کرانے کے لئے کسی شخص کو معین نہیں کیا تو وصیت جائز نہیں ہے اس لئے کہ جس کے لئے وصیت کی گئی ہے وہ مجہول ( نامعلوم ) ہے لیکن