عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے بارہویں ذی الحجہ تک ) ذبح کرنا امام صاحب رحمہ کے نزدیک واجب ہے اور صاحبین کے نزدیک سنت ہے، ان ایام سے پہلے ذبح کرنا بالاجماع جائز نہیں اور ایامِ نحر کے بعد ذبح کرنا بالاجماع جائز ہے لیکن وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک واجب کا تارک ہوگا( اور اس پر ایک اور دم یعنی دمِ جنایت واجب ہوگا ۸؎ ) اور صاحبین و دیگر ائمہ کے نزدیک وہ سنت کاتارک ہوگا ۹؎پس دمِ قران وتمتع کے جوازِ ذبح کااول وقت قربانی کے پہلے دن یعنی دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق ہے اس سے قبل بالاتفاق جائز نہیں ہے اور ذبح کا آخری وقت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک وجوب کی حیثیت سے اور صاحبین و دیگر ائمہؒ کے نزدیک سنت کی حیثیت سے قربانی کے آخری دن یعنی بارہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے تک ہے لیکن ایامِ قربانی کا اول وقت افضل ہے اور دمِ قران وتمتع ذمہ سے ساقط ہونے کے لئے اس کے آخری وقت کی کوئی حد نہیں ہے( یعنی مرنے سے پہلے جب بھی ذبح کرے گا اس کے ذمہ سے اُترجائے گا ) اور قارن ومتمتع کے حق میں یہ واجب ہے کہ ہدی کا ذبح رمی اور حلق کے درمیان میں ہو، (یعنی پہلے رمی کرے پھر ذبح کرے اس کے بعد حلق کرائے)۔ (۲) جو قارن یا متمع ہدی پر قادر ہو اگر وہ ہدی ذبح کرنے سے پہلے مرجائے تو اس پر ذبح کی وصیت کرنا واجب ہے پس اگرو ہ وصیت کرجائے تو اس کے ترکہ کے تہائی مال سے پوری کی جائے اور اگر اس نے وصیت نہیں کی تو اس کے ورثاء پر ذبح کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر وارث اس کی طرف سے خود تبرعاً ذبح کردیں تو جائز ودرست ہے اور انشاء اﷲ تعالیٰ میت کے ذمہ سے اس دمِ واجب کے ساقط ہونے کی امید ہے جیسا کہ وصیت حج کے بارے میں ہے ۱؎