عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۳- وہ شخص جس نے دل سے تصدیق توکی لیکن زبان سے اقرار نہیں کیا (یعنی موقع ملنے اورمطالبہ کئے جانے پر اقرار نہ کیا) تو احکام دنیا میں اس کو مومن نہ کہا جائے گا اوردنیا میں جو رعایتیں اور حقوق مومن کو ملتے ہیںوہ ان سے محروم رہے گا کیونکہ تصدیق بالقلب ایک پوشیدہ چیز ہے ہر شخص اس کو نہیں جانتا اس لئے شریعت نے اقرارِ زبانی کو تصدیقِ قلبی کا قائم مقام کیا اور اس کیلئے علامت مقرر کی تاکہ دنیا میں احکام اسلام اس پر عائد ہوں، تاہم وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن ہے او رآخرت میں جنت کا مسحتق ہے۔ پس اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے مثلا ً حالت اکراہ میں یعنی کوئی شخص کسی مومن کے قتل پر یا عضو کاٹ ڈالنے پر آمادہ ہوکر یوں کہے کہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا انکار کر، یا کوئی اورکلمئہ کفرکہلوائے اور قتل وغیرہ کی دھمکی دے پس اگر مومن اس کو اس پر قادر سمجھے اور اس مصیبت کودور کرنے کیلئے زبان سے کلمات کفر کہہ دے اور دل میں وہی تصدیق واطمینان ایمانی باقی ہوجو پہلے تھا تو اس زبانی اقرار کے جاتے رہنے سے وہ شخص عنداللہ کافرنہ ہوگا بلکہ مومن ہے اگرچہ لوگ اسے کافر کہیں بشرطیکہ اس جبروا کراہ کے جاتے رہنے پر ایمان پر ثابت قدم رہا، مگر افضل درجہ یہی ہے کہ جبروکراہ کے موقع پر بھی قتل ہوجائے اور کلمہ کفر نہ کہے۔ ۴- اور وہ شخص جس نے دل سے تصدیق تونہ کی فقط زبان سے اقرار کر لیا تو وہ لوگوں کے نزدیک ظاہراً احکام میں مومن ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص کافرہے اس کو شرع شریف میں منافق کہتے ہیں۔ منافقین اگرچہ دنیا میں مومن ظاہر کرکے اپنے آپ کو حدود شرعیہ کی رو سے متعلقہ کفار سے بچالیں لیکن آخرت میں ان کے لئے بھی ہمیشہ کی دوزخ ہے اور درد ناک عذاب ہے اِنَّ المُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارO (النساء:۱۴۵) بیشک