کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
(3)— تیسرا قول : جمہور علماء کرام اور اصحابِ سیرکے نزدیک غزوہ خندق میں آپﷺکے صلاۃ الخوف نہ پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامکو کفار و مشرکین سے مسلسل برسرِ پیکار رہنے کی وجہ سے نماز کا موقع ہی نہ مل سکا تھا ۔(احکام القرآن للجصاص:3/245) اور یہ کہنا کہ اُس وقت تک صلاۃ الخوف مشروع ہی نہیں تھی ، یہ درست نہیں ،راجح یہی ہے کہ یہ نماز غزوہ خندق سے بھی پہلے”غزوہ ذات الرّقاع“میں مشروع ہوچکی تھی،جو راجح قول کے مطابق سنہ چار ہجری میں پیش آیاتھا ،کما مرّ سابقاً۔(طبقات ابن سعد:2/46، 47)(معارف السنن:5/36)(4)— چوتھا قول : بعض حضرات یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خندق میں صلاۃ الخوف نہ پڑھنے کی وجہ ”تعذّرِ طہارت“ تھی یعنی وضو کرنا ممکن نہ تھا ۔(مرعاۃ:5/2)(5)— پانچواں قول : بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ سواری سے اترنا ممکن نہ تھا اُس وقت تک سوار ہوکر نماز پڑھنے کی مشروعیت نہ تھی۔(مرعاۃ:5/2)نمازِ خوف اب بھی مشروع ہے یا منسوخ ؟ امام مزنی: منسوخ ہوچکی ہے ، اب اس کو مخصوص طریقے سے پڑھنا درست نہیں۔ امام ابو یوسف : یہ نماز نبی کریم ﷺ کے ساتھ مخصوص تھی ، آپ کے بعد جائز نہیں ۔ جمہورائمہ اربعہ : صلاۃ الخوف منسوخ نہیں ،اب بھی جائز اور ثابت ہے،چنانچہ آپﷺ کے بعد حضرات صحابہ کرام سے پڑھنا ثابت ہے۔(مرقاۃ :3/1051)(مرعاۃ المفاتیح :5/2)