کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
چاروں صورتیں جائز ہیں ، البتہ پہلی صورت اولی ہے ۔ (نفحات التنقیح : 2/384)نمازی کے آگے سے گزرنے کی وعیدیں: نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :اگر نمازی کے سامنے سے گذرنے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو وہ چالیس تک کھڑا رہے ،یہ بہتر ہے اس بات سے کہ اس کے سامنے سے گذرے۔ راوی کو شک ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے چالیس سال کہا یا چالیس مہینہ یا چالیس دن۔ لَوْ يَعْلَمُ المَارُّ بَيْنَ يَدَيِ المُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ» قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لاَ أَدْرِي، أَقَالَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ شَهْرًا، أَوْ سَنَةً۔(بخاری:510) نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے: اگر تم میں سے کوئی یہ جان لے کہ اپنے مسلمان بھائی کے سامنے سے جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو عرضاً گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے لئے سو برس تک کھڑے رہنا ایک قدم آگے بڑھانے سے بہتر معلوم ہو۔ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُكُمْ مَا لَهُ فِي أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْ أَخِيهِ، مُعْتَرِضًا فِي الصَّلَاةِ، كَانَ لَأَنْ يُقِيمَ مِائَةَ عَامٍ، خَيْرٌ لَهُ مِنَ الْخَطْوَةِ الَّتِي خَطَاهَا۔(ابن ماجہ:946) حضرت کعب فرماتے ہیں کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس کے اس جرم کی سزا کیا ہے تو اس کو اپنا زمین میں دھنسایا جانا نمازی کے آگے سے گزرنے سے زیادہ بہتر معلوم ہو اور ایک روایت میں بجائے بہتر کے ”زیادہ آسان“ کا لفظ ہے“۔أَنَّ كَعْبَ الأََحْبَارِ قَالَ: لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يُخْسَفَ بِهِ، خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ.(مؤطاء مالک:410)