کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
تراویح عہدِ فاروقی میں: آنحضرتﷺاورحضرت ابوبکر کے زمانے میں اور حضرت عمر فاروق کےابتدائی خلافت کے زمانے میں تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں تھا، بلکہ لوگ تنہا یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے، سب سے پہلے حضرت عمر نے ان کو ایک امام پر جمع کیا۔ اِس کی تفصیل کیلئے مندرجہ ذیل دو روایات ملاحظہ فرمائیں : نبی کریمﷺکی وفات ہوئی اور قیامِ رمضان(تراویح) کا معاملہ اسی طرح رہا (یعنی تراویح کی نماز کیلئے جماعت مقرر نہیں تھی، بلکہ جو جانتا تھاوہ پڑھ لیتا تھا)پھر حضرت ابوبکر صدیقکی خلافت میں بھی یہی صورت رہی اور حضرت عمرکے زمانہ خلافت کے ابتدائی ایّام میں بھی یہی معمول رہا۔فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ۔(مسلم:759) پھر حضرت عمرنے نماز تراویح کیلئے جماعت کا حکم دیا اور اُنہیں حضرت اُبیّ بن کعب کی اِمامت پر جمع کردیا، جیسا کہ روایت میں ہے :حضرت عبد الرحمن بن عبد القاریفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان کی رات میں مَیں حضرت عمرکے ساتھ مسجد گیا ،وہاں ہم نے دیکھا کہ لوگ متفرّق اور بکھرے ہوئے تھے(یعنی)کوئی(عشاء کے بعدنفل) تنہاء پڑھ رہا تھا اور کوئی اِس طرح پڑھ رہا تھا کہ چند آدمی اور بھی اس کے ساتھ تھے(گویا کچھ لوگ تو الگ الگ تراویح کی نماز پڑھ رہے تھےاور کچھ لوگ جماعت کے ساتھ پڑھ رہے تھے، یہ صورت حال دیکھ کر)حضرت عمر نے فرمایا:” إِنِّي أَرَى لَوْ