کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
اور حضرت تمیم داری کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعتیں پڑھائیں ۔ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً۔(مؤطاء مالک280) اِس روایت سے بظاہر حضرت عمرکے فیصلے میں تعارض معلوم ہوتا ہے ، اِس کا جواب یہ ہے : گیارہ رکعات تراویح کا فیصلہ حضرت عمرکا ابتدائی فیصلہ تھا ،جس کی حکمت ملاعلی قاری یہ بیان فرماتے ہیں : حضرت عمرنےابتداءً گیارہ رکعات تراویح مع وتر اس لئے تلقین کی تھی کیونکہ آپ ﷺسے تراویح کا آٹھ رکعات پڑھنا منقول ہے ، پس حضور کی اتباع میں ابتداءً یہ فیصلہ فرمایا ،جو بعدمیں بیس رکعات پر پختہ ہوگیا۔ (مرقاۃ : 3/971) علّامہ بیہقینے بھی روایات کے تعارض کو دور کرنے کیلئے یہ تطبیق پیش کی ہےکہ دونوں روایتوں کو اِس طرح جمع کیا جاسکتا ہے کہ پہلے لوگ گیارہ رکعتیں پڑھ رہے تھے ، پھر وتر سمیت بیس رکعت پڑھنے لگے ۔وَيُمْكِنُ الْجَمْعُ بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقُومُونَ بِإِحْدَى عَشْرَةَ، ثُمَّ كَانُوا يَقُومُونَ بِعِشْرِينَ وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ۔(سنن بیہقی:2/699)تراویح عہد صحابہ و تابعین میں : حضرت عمر کے فیصلے پر صحابہ کرام ،تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں بلاکسی اختلاف عمل ہوتا رہا ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی بیس رکعت سے کم کا قائل نہیں ہے ۔ حضرات صحابہ کرامکا عمل مندرجہ ذیل روایت میں ملاحظہ فرمائیں :