کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
صَوْتِهِ وَيَشْهَدُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ وَشَاهِدُ الصَّلَاةِ يُكْتَبُ لَهُ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ صَلَاةً وَيُكَفَّرُ عَنْهُ مَا بَيْنَهُمَا۔(ابوداؤد:515) نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے: جس نےبارہ سال تک اذان دی اُس کے لئے جنّت واجب ہوجاتی ہےاور اُس کے لئےاذان دینے کی برکت سےہر دن (ہر اذان کے عوض میں)ساٹھ نیکیاں اور ہر اِقامت کے بدلےتیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔مَنْ أَذَّنَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَكُتِبَ لَهُ بِتَأْذِينِهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ سِتُّونَ حَسَنَةً، وَلِكُلِّ إِقَامَةٍ ثَلَاثُونَ حَسَنَةً۔(ابن ماجہ: 728)اذان کا جواب دینے کا حکم : اجابت یعنی اذان کا جواب دینے کی دو قسمیں ہیں : (۱)اجابتِ قولی ۔ (۲) اجابتِ فعلی ۔ اجابتِ فعلی یعنی اذان سن کر عملاً مسجد کی طرف جانا واجب ہے ۔ اور اجابتِ قولی کے بارے میں بعض حضرات وجوب کے قائل ہیں ، لیکن جمہور کے نزدیک سنت ہے۔ (نفحات التنقیح: 2/349)اذان کا جواب دینے کا طریقہ : شوافع اور مالکیہ : مکمل اذان کا جواب مؤذن کے کلمات کی طرح ہے ۔ احناف اور حنابلہ : صرف حیعلتین (یعنی حیّ علی الصلاۃ اور حیّ علی الفلاح)کے جواب میں حوقلتین (یعنی لاحولَ و لا قوّۃَ اِلّا باللہ)ہے ، باقی مؤذن کی طرح ہے ۔(درس ِ ترمذی :1/475) فائدہ : فجر کی اذان میں ”الصلاۃ خیر من النّوم “ کا جواب ”صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ“ہے ۔اور اِقامت میں ”قَدْ قَامَتِ الصلَاۃُ “ کا جواب ”أقَامَھَا اللہُ وَ أَدَامَھَا“سے دیا جائے گا ۔