کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
گا۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْمُؤَذِّنِينَ يَفْضُلُونَنَا، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:قُلْ كَمَا يَقُولُونَ فَإِذَا انْتَهَيْتَ فَسَلْ تُعْطَهْ۔(ابوداؤد:524) نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے: دو دعائیں ردّ نہیں کی جاتیں یا بہت کم ردّ کی جاتی ہیں : ایک اذان کے وقت مانگی جانے والی دعاء ، دوسری جنگ کے وقت جب جبکہ لوگوں کی ایک دوسرے میں مڈبھیڑ ہوجائے۔ثِنْتَانِ لَا تُرَدَّانِ، أَوْ قَلَّمَا تُرَدَّانِ الدُّعَاءُ عِنْدَ النِّدَاءِ، وَعِنْدَ الْبَأْسِ حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا۔(ابوداؤد:2540)وقت سے پہلے اذان دینے کا حکم : ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء اِن چاروں نمازوں کے بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ ان کی اذان وقت سے پہلے دینا جائز نہیں ، چنانچہ اگر دے دی گئی ہو تووقت کے داخل ہونے بعد اذان کو لوٹانا ضروری ہے ، تاہم فجر کی اذان کے بارے میں اختلاف ہے کہ وقت سے پہلے اذان دی جاسکتی ہے یا نہیں ۔ ائمہ ثلاثہ اور امام ابویوسف : نصفِ لیل کے بعد کسی بھی وقت فجر کی اذان دینا جائز ہے ۔اور صبح صادق کے بعد اعادہ ضروری نہیں ، البتہ بہتر ہے ۔اس طرح فجر کی دو اذانیں ہوجائیں گی ۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد : صبح صادق سے پہلے اذان دینا جائز نہیں ،اگر دے دی ہو تو اعادہ ضروری ہے ۔گویا فجر کے لئے ایک ہی اذان ہوگی ۔ گویا اختلاف دو چیزوں میں ہے : (1) وقت سے پہلے اذانِ فجر دینا کیسا ہے ۔؟ (2) فجر کی کتنی اذانیں ہیں ؟ ائمہ ثلاثہ اور امام ابویوسف: وقت سے پہلے اذان دینا جائز ہے ، اور فجر کی دو اذانیں ہیں ۔