کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
امام ابوحنیفہ اور اِمام شافعی :اِن دونوں حضرات سے اِس بارے میں کچھ منقول نہیں۔ امام مالک :اِن دو رکعتوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔ امام احمد بن حنبل :زیادہ سے زیادہ جائز ہے ، چنانچہ اُن کا اِس بارے میں یہ قول نقل کیا گیا ہے: میں اس سے منع نہیں کرتا اور نہ خود اس پر عمل کرتا ہو ں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اِن دونوں رکعتوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، اور کیسے انکار کرسکتے ہیں جبکہ متعدد روایات اس کی مشروعیت پر موجود ہیں ۔ خود آپ ﷺسے وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا متعدد روايات سے ثابت ہے ، لہذا اُس كا انكار نہيں كيا جاسكتا ۔(مرقاۃ : 3/942) (درسِ ترمذى : 2/24)(درسِ مشکوۃ : 321)نقضِ وتر کا مسئلہ : نقض توڑنے کو کہا جاتا ہے ، اور نقضِ وتر کا مطلب اور اِس کے حکم کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: مطلب : اس کامطلب یہ ہے کہ ایک دفعہ جب سونے سے قبل وتر پڑھی جاچکی ہو ، پھر رات کو تہجد کے لئے اٹھیں تو وتر کی نماز کو آخرِ صلوۃ بنانے کے لئے ایک رکعت نفل کی نیت سے پڑھی جائے تاکہ وہ ایک رکعت وتر کی نماز کے ساتھ مل کر شفع بن جائے ، جس سے وہ وتر منقوض ہوجائے ، پھر تہجد کی نماز پڑھ کر آخر میں از سرِ نَو وترکی نماز اداء کی جائے ۔ حکم: نقضِ وتر یعنی وتر کو توڑنے کا حکم کیا ہے ، اِس میں اختلاف ہے : امام اسحاق بن راہویہ : نقضِ وتر کیا جائے گا ، تاکہ رات کی آخری نماز وتر ہوسکے ۔