کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
حَتَّى أَصْبَحْنَا , ثُمَّ دَخَلْنَا , فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , اجْتَمَعْنَا الْبَارِحَةَ فِي الْمَسْجِدِ , وَرَجَوْنَا أَنْ تُصَلِّيَ بِنَا , فَقَالَ: إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ۔(طبرانی اوسط:525)بیس کی روایت: حضرت عبد اللہ بن عباس کی ہے کہ نبی کریمﷺرمضان میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»۔(طبرانی کبیر:12102) لیکن مذکورہ بالادونوں ہی حدیثیں ضعیف ہیں ، لہذا صحیح بات یہی ہے کہ اس بارے میں فیصلہ کن بات نہیں کی جاسکتی کہ آپﷺ نے کتنی رکعات وتر پڑھیں۔(آپ کے مسائل اور اُن کا حل) تاہم یہ ضرور کہا جائے گا کہ چونکہ حضرت عمرکے دور میں اِس دوسری روایت پر صحابہ کرام کا اِجماع ہوگیا ہے،نیز اُمّت نے بیس رکعت تراویح کی روایت کو ہی معمول بہٖ قرار دیا ہے جیساکہ اِس کی تفصیل ماقبل میں گزری ہے ، اِس لئے دوسری روایت ضعیف ہونے کے باوجود بھی تعاملِ اُمّت کی وجہ سے قوی ہوگئی۔چنانچہ علّامہ شامیفرماتے ہیں:حضرت عبد اللہ بن عباسکی حدیث کی جو تضعیف کی گئی ہے، اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا وہ حدیث بیس رکعت تراویح کے مسنون ہونےپر اِجماع ہوجانے کی وجہ سےقوی ہوگئی ہے۔وَأَمَّا تَضْعِيفُ الْحَدِيثِ بِمَنْ ذَكَرَ فَقَدْ يُقَالُ إنَّهُ اعْتَضَدَ بِمَا مَرَّ مِنْ نَقْلِ الْإِجْمَاعِ عَلَى سُنِّيَّتِهَا مِنْ غَيْرِ تَفْصِيلٍ۔(منحۃ الخالق علی البحر الرائق:2/72)