کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
اِشکال :حدیث میں تو اَقراء کو اَعلَم پر مقدّم کیا گیا ہے ، چنانچہ اِرشادِ نبوی ہے:” يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ “ پس اِس حدیثِ صریح کے ہوتے ہوئے جمہور کے نزدیک اَقراء کو کیوں ترجیح دی گئی ہے ؟ جواب : اِس کا جوب یہ ہے کہ آپﷺکا یہ اِرشاد اپنے زمانے کے اعتبار سے ہے اور اُس وقت اَقراء جو ہوتا تھا وہ اَعلَم بھی ہوتاتھا ،چنانچہ حضرت عمرکے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے سورۃ البقرۃ بارہ سال میں یاد کی تھی ، ظاہر ہے کہ یہ یاد کرنا اُس کے جمیع مسائل و احکام کے ساتھ یاد کرنا تھا ۔ پھر بعد میں یہ دو مختلف طبقے بن گئے ، اِس لئے اَفقہ کو ترجیح دی گئی ہے ۔ علاوہ ازیں نبی کریمﷺنے بھی اپنے آخری ایّام میں حضرت سیدنا ابوبکرصدیقکو اپنی جگہ اِمامت کیلئے کھڑا کیا تھا حالآنکہ صحابہ کرام میں بڑے قرّاء صحابہ کرام بھی موجود تھے ، اِس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اَفقہ کو مقدّم کیا جائے گا۔ اور اَفقہ کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ نماز پڑھاتے ہوئے صرف قراءت کی ضرورت نہیں ہوتی اور بھی مختلف النوع مسائل پیش آتے رہتے ہیں جن میں اَعلَم سے مسائلِ صلوۃ کو جانے کی وجہ سے غلطی کا اِمکان کم ہوتا ہے ، بخلاف اَقراء کے ، کیونکہ اُس سے اَفقہ نہ ہونے کی وجہ سے غلطی کا اِمکان زیادہ ہے ، پس اِسی وجہ سے اَفقہ کو اَقراء پر ترجیح دی گئی ہے۔(مرقاۃ :3/862)(البنایۃ 2/329)(فتح القدیر:1/348)نابینا شخص کا اِمام بننا : نابینا شخص کے اِمام بننے کے بارے میں اختلاف ہے :