کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
پہلا قول : آدھی رات کے بعد تک یعنی آخرِ لیل تک مؤخر کرکے پڑھنا مکروہ ہے ہے ، اِس لئے کہ عشاء کی نماز بھی رات کے نصفِ آخر میں پڑھنا مکروہ ہے ، پس اُس کے تابع یعنی تراویح کو بھی نصفِ آخر میں پڑھنا مکروہ ہوگا ۔دوسرا قول :آدھی رات کے بعد بھی صبح سے پہلے پہلے جبکہ ترک کا خوف نہ ہو، تراویح کو مؤخر کرکے پڑھنا مکروہ نہیں ، اِس لئے کہ تراویح اگرچہ عشاء کی نماز کے تابع ہے لیکن یہ قیام اللیل ہے، اِسی لئے تو اِس کو ”قیام شہر رمضان“ کہا جاتا ہے اور قیام اللیل کا رات کے آخر میں پڑھنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ افضل ہوتا ہے، لہٰذا اسے مکروہ کیسے کہاجاسکتا ہے ۔ اور یہی قول راجح ہے۔(شامیہ: 2/44) فائدہ:اگر عشاء ،تراویح اور وتر سے فارغ ہونے کے بعد یہ پتہ چلے کہ عشاء کی نماز بغیر وضو کے پڑھی گئی ہےتو بالاتفاق تراویح کو لوٹا یا جائے گا ، کیونکہ وہ عشاء کے تابع ہے لہٰذا اپنے وقت سے پہلے اداء ہوگئی ہے، ہاں! وتر کے لوٹانے میں اختلاف ہے : اِمام صاحب کے نزدیک وتر کی نماز لوٹائی نہیں جائے گی ،کیونکہ وہ عشاء کے تابع نہیں ، مستقل واجب نماز ہے۔ جبکہ صاحبین کے نزدیک وتر کی نماز بھی لوٹائی جائے گی ، کیونکہ وہ سنّت ہے اور فرض نماز کے تابع ہے ۔ (عُمدۃا لفقہ:2/323)تراویح کے وقت کے بارے میں تین قول ہیں : تراویح کا وقت پوری رات ہے، خواہ عشاء سے پہلے پڑھیں یا بعد میں ،اِسی طرح وتر سے پہلے پڑھیں یا بعد میں ،گویا اِس قول کے مطابق غروبِ شمس سے تراویح کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور صبح صادق تک رہتا ہے۔لیکن یہ قول ضعیف ہے ، اِس کی کسی نے تصحیح نہیں ۔