کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
فرض نماز کو دو مرتبہ پڑھنا جائز تھا ، لہٰذ ا اِس سے ”اقتداء المفترض خلف المتنفل “ کے دائمی جواز پر اِستدلال کرنا درست نہیں ، کیونکہ بعد میں اس ممانعت کردی گئی ہے۔(درسِ مشکوۃ : 325،326) («»«»«»(«»«»«»(بَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ عیدین کی مشروعیت: عید کی نماز ہجرت کے پہلے سال مشروع ہوئی ہے، حدیث میں ہے : حضرت انسفرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺجب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ لہو و لعب کرتے (اور خوشیاں مناتے) تھے ، آپ ﷺ نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ یہ دو دن کیسے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ان دونوں دنوں میں ہم زمانہ جاہلیت میں کھیلا کودا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دونوں دنوں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دئیے ہیں اور وہ عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن ہیں۔عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، فَقَالَ:مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟ قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ۔ (ابوداؤد:1134) زمانہ جاہلیت کے دو دن جو منائے جاتے تھے اس سے مراد ” یوم النّیروز “ اور ”یوم المھرجان “ہیں