کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
نمازِ عید الفطر میں دیر کی جائے تاکہ صدقہ فطر ادا کر سکیں۔(شامیہ:2/171)(عالمگیری:1/150) حضرت ابو الحویرث راوی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حضرت عمرو بن حزم کو جو نجران میں تھے یہ حکم لکھ کر بھیجا کہ بقر عید کی نماز جلدی اور عید الفطرکی نماز تاخیر سے ادا کرو نیز (خطبہ میں) لوگوں کو پند و نصیحت کرو۔أَخْبَرَنِي ابْنُ الْحُوَيْرِثِ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺكَتَبَ إِلَى عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَهُوَ بِنَجْرَانَ:أَنْ عَجِّلِ الْأَضْحَى وَأَخِّرِ الْفِطْرَ وَذَكِّرِ النَّاسَ۔(مسند الشافعی:1/74)نمازِ عید کے دوران وقت کا نکل جانا: اگر عید کی نماز کے دوران نماز تشہد سے پہلے پہلے وقت ختم ہوگیا تو نماز عیداداء نہ ہوگی بلکہ یہ رکعتیں نفل ہو جائیں گی،ہاں تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد نکل جائے تو نماز ہوجائے گی۔(شامیہ:2/171)نمازِ عید پہلے روز اداء نہ کرنا: عیدین کی نماز اگر پہلے دن اداء نہ کی جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں :عُذر کی وجہ سے ہو : عید الفطر کو دوسرے دن تک اور عید الاضحیٰ کو تیسرے دن تک مؤخّر کیا جاسکتا ہے۔بغیر عُذر کے ہو : عید الفطر کو دوسرے دن تک اور عید الاضحیٰ کو تیسرے دن تک مؤخّر کیا جاسکتا ہے،جبکہ بلاعُذر عید الفطر کو دوسرے دن تک بھی مؤخّر نہیں کرسکتے اور عید الاضحیٰ کو تیسرے دن تک مؤخرکیا جاسکتا ہے،لیکن بلاعُذر کے مؤخر کرنا مکروہ ہے۔(عالمگیری:1/152)(البنایۃ:3/121) حضرت عمیر بن انس اپنے چچاؤں سے جو رسول اللہﷺکے صحابہ میں سے تھے ، نقل کرتے ہیں کہ ایک قافلہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شہادت دی کہ انہوں نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔