کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْتِفَاتِ الرَّجُلِ فِي الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ:«إِنَّمَا هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ»۔(ابوداؤد:910) ایک روایت میں آپﷺکا یہ اِرشاد مروی ہے: جس نے نماز میں اِدھر اُدھر توجّہ کی اللہ تعالیٰ اُس کی نمازکواُسی پر لوٹادیتے ہیں۔من قَامَ فِي الصَّلَاة فَالْتَفت ردّ الله عَلَيْهِ صلَاته۔(الترغیب:792)اِلتفات فی الصلاۃ کا حکم : نماز میں اِدھر اُدھر متوجہ ہونا درست نہیں، حتی الا،مکان اِس سے مکمل گریز کرنا چاہیئے ۔ البتہ اس کی مختلف صورتیں ہیں، بعض صورتوں میں نماز فاسد اور بعض میں مکروہ ہوتی ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے: (1)اِلتفات بالقلب ۔ دل و دماغ کے ذریعہ اِدھر اُدھر متوجہ ہوجانا ۔ (2)اِلتفات بالقالب: جسم اور بدن کے ذریعہ اِدھر اُدھر متوجہ ہونا ۔ پہلی صورت میں نماز کا خشوع وخضوع فوت ہوجاتا ہے جوکہ در اصل نماز کی اصل روح ہے۔دوسری صورت کی پھر مزید تین شکلیں ہیں : التفات بالبصر ۔(کَن انکھیوں سے دیکھنا) جائز ، مگر خلاف ِ اولیٰ ہے ،بچنا چاہئے۔ التفات بتحریک الرأس۔(سر کو حرکت دینا ) مکروہ ہے ۔ التفات بالانحراف عن القبلہ ۔ (سینہ پھر جانا ) یہ مُفسِدِ صلاۃ ہے ۔(شامیہ: 1/643)