کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
علّامہ کاسانیفرماتے ہیں : حضرت عمرنے حضرات صحابہ کرام کورمضان کے مہینے میں حضرت اُبیّ بن کعبکی اقتداء پر جمع کردیا تھا چنانچہ وہ لوگوں کو ہر رات میں بیس رکعت پڑھاتے، اور اِس پر کسی صحابی نے بھی اُن پر نکیر نہیں کی ، لہٰذا یہ صحابہ کرام کی جانب سے بیس رکعت پر اِجماع ہوگیا ۔ جَمَعَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِﷺفِي شَهْرِ رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَصَلَّى بِهِمْ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَلَمْ يُنْكِرْ أَحَدٌ عَلَيْهِ فَيَكُونُ إجْمَاعًا مِنْهُمْ عَلَى ذَلِكَ۔(بدائع الصنائع:1/288)رکعاتِ تراویح کی حکمت: تراویح کی بیس رکعات کی حکمت کیا ہے ، اِس کی حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں ، ظاہری طور پر علماء کرام نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے : دن بھر کی فرض نمازیں وتر کے ساتھ ”بیس رکعات“بنتی ہیں ، پس اُن کی تکمیل کیلئے رمضان المبارک میں اُنہی کے مُساوی بیس رکعات تراویح مقرر کی گئی ہیں تاکہ فرض نمازیں اعلیٰ درجہ کی قبولیت پر فائز ہوسکیں ۔(البحر الرائق:2/72)(شامیہ:2/45)تراویح کے مختلف ادوار: تراویح کے بارے میں تین دور ہیں : (1) عہدِنبوی میں ۔ (2)عہد ِ فاروقی میں۔ (3)عہدِ صحابہ میں ۔تراویح عہدِ نبوی میں: عہدِ نبوی میں تراویح کی کیا صورت حال تھی ، اِس کی تفصیل یہ ہے :