کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
امام ابو حنیفہ : اس کا وقت عشاء کا وقت ہے ، لیکن ترتیب(پہلے عشاء اور پھر وتر) شرط ہے ۔ ائمہ ثلاثہ اور صاحبین : اس کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہوکر صبح صادق تک ہے ۔ثمرۂ اختلاف : کوئی شخص نسیاناً وتر کی نماز عشاء کی نماز سے پہلے پڑھ لے، مثلاً :وتر کے پڑھنے کے بعد یاد آئے کہ عشاء نہیں پڑھی ، یا بغیر وضو کے پڑھی ہے،توایسی صورت میں امام ابوحنیفہ کے نزدیک عشاء کے بعد اُس کو لوٹانا ضروری نہیں، کیونکہ وتر کی نماز اپنے وقت یعنی وقتِ عشاء میں اداء کی گئی ہے ، جبکہ ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کے نزدیک وتر کو لوٹانا ضروری ہے ۔(الفقہ الاسلامی : 2/1014) نبی کریمﷺسے رات کے مختلف حصوں میں وتر پڑھنا ثابت ہے ، لہٰذا رات کے ابتدائی حصے میں یا درمیان میں یا کسی بھی وقت میں وتر پڑھنے میں سنّت کی نیت کی جاسکتی ہے ، چنانچہ حضرت مسروقفرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہسے نبی کریمﷺکی نمازِ وتر کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت عائشہ صدیقہنے فرمایا: آپﷺنے رات کے ہر حصہ میں وتر پڑھی ہے، کبھی اوّل حصہ میں ، کبھی درمیانے حصے میں اور کبھی آخری حصے میں ۔مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ أَوَّلَهُ، وَأَوْسَطَهُ، وَآخِرَهُ۔(ترمذی:456)وقت ِ مستحب :یعنی وہ وقت جس میں وتر کی نماز پڑھنا مستحب ہےاُس کی تفصیل یہ ہے : وتر کا مستحب وقت یہ ہے کہ رات کے آخری حصے میں تہجد کے بعد پڑھی جائے ، لیکن یہ اُس کے لئے ہے جس کا تہجدمیں پابندی کے ساتھ اٹھنے کا معمول ہو ۔ بصورت دیگر سونے سے قبل پڑھنا ضرورى ہے ۔ جیساکہ حدیث میں ہے،آپﷺنے اِرشاد فرمایا:جس کو اِس بات کا خوف ہوکہ وہ رات کے آخری پہر