کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
چنانچہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے آپﷺنے اِرشاد فرمایا: اے علی!میں تمہارے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں اور تمہارے لئے بھی وہی ناپسند کرتا ہوں جواپنے لئے ناپسند کرتا ہوں، تم دو سجدوں کے درمیان ”اِقعاء“ کے طریقے سے نہ بیٹھنا ۔يَا عَلِيُّ، أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي، وَأَكْرَهُ لَكَ مَا أَكْرَهُ لِنَفْسِي، لَا تُقْعِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ۔ (ترمذی:282) ”اِقعاء“ کے طریقے سے بیٹھنا کس طرح ہوتا ہے ، اِس کی تفسیر اور حکم ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :اقعاء کی تفسیر : اقعاء کی دو تفسیریں کی گئی ہیں : الیتین (کولھوں )پر بیٹھ کر پاؤں کو اس طرح کھڑا کرلینا کہ گھٹنے شانوں کے مقابل آجائیں ، اور دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک لیا جائے ۔ دونوں پاؤں کو پنجے کے بَل کھڑا کرکے ایڑیوں پر بیٹھا جائے ۔(مرقاۃ :2/727)اقعاء کا حکم : پہلی تفسیر کے مطابق ”اِقعاء“ کی کیفیت میں بیٹھنا مکروہ تحریمی ہے اور دوسری تفسیر کی رو سے مکروہ تنزیہی ہے۔(العرف الشذی:1/ 279)اقعاء کے حکم میں اختلاف : پہلی تفسیر کے اعتبار سے اقعاء بالاتفاق مکروہ ہے ۔ اور دوسری تفسیرکی رو سے اقعاء کے حکم میں اختلاف ہے : امام شافعی :مسنون ہے ۔ (یعنی اُن کے نزدیک جلسہ میں افتراش اور اقعاء دونوں مسنون ہیں ) ائمہ ثلاثہ :مکروہ ہے ۔ (یعنی جلسہ میں صرف افتراش مسنون ہے)۔(درس ِ ترمذی : 2/53)