کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
حضرت عمر کے زمانے میں کتنی رکعات تراویح ہوتی تھیں ؟ حضرت عمر کے زمانے میں بیس رکعت تراویح ہوتی تھی ، حضرت عمر نےصحابہ کرام کی موجودگی میں بیس رکعات کا فیصلہ فرمایا تھا ، جس پر کسی صحابی نے نکیر نہیں کی۔ پس اجماع صحابہ سے بیس رکعات تراویح کا ثبوت ہوا ۔ نیز حضرت عمر کا فیصلہ خود نبی کے فیصلے کی طرح واجب الاتباع ہے ۔ چنانچہ : ارشاد نبوی ہے : فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ۔(ابوداؤد:4607) حضرت عمرکے زمانہ خلافت میں بیس رکعت تراویح ہونے پر چند روایات ملاحظہ فرمائیں : حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر کے عہد میں بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ:كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً۔(سنن بیہقی:2/698) حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر کے عہد میں (وتر سمیت)تئیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ:كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً۔(سنن بیہقی:2/699)حضرت عمرکے دَور میں ابتداءً گیارہ رکعت تراویح کا مطلب: ماقبل میں ذکر کردہ روایات سے حضرت عمرکا بیس رکعت تراویح کا فیصلہ معلوم ہوا تھا ،جبکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا ، چنانچہ مؤطاء امام مالک کی روایت ہے :حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابیّ بن کعب