کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
|
بیس رکعات تراویح پر اُمّت کااِجماع : بیس رکعت تراویح اُمّت کا ایک اجماعی مسئلہ ہے ، اِس میں آٹھ کا قول اختیار کرنا اِجماعِ اُمّت کی خلاف ورزی ہے ، ذیل کے کچھ حوالہ جات سے اِس کا اندازہ لگایا جاسکتاہے: اِمام ترمذیفرماتے ہیں : تراویح کے بیس رکعت ہونے پر اکثر اہلِ علم کا عمل ہے ، جیسا کہ حضرت علی حضرت عمر اور دیگر حضرات صحابہ کرام سے مَروی ہے۔وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔(ترمذی:806) علّامہ انور شاہ کشمیریفرماتے ہیں : جمہور صحابہ کرام کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہے، اور اِسی وجہ سے ائمہ اربعہ میں سے کوئی بھی بیس سے کم کا قائل نہیں ۔لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة في التراويح، وإليه جمهور الصحابة رضوان الله عنهم۔(العَرف الشذی:2/208) علّامہ نووی قاضی عیاضکے حوالے سے فرماتے ہیں : بیس رکعت تراویح جمہورعلماء کرام کا مسلَک ہے۔وَنَقَلَهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ عَنْ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ۔(المجموع شرح المہذّب:4/32) علّامہ ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں : بیس رکعت تراویح وہ عمل ہے جس پر اکثر مسلمان عمل کرتے ہیں ۔وَهُوَ الَّذِي يَعْمَلُ بِهِ أَكْثَرُ الْمُسْلِمِينَ۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ:22/272)