کتاب الصلوۃ |
دیث کی م |
ایسے لوگوں کی طرف سے قربانی کی جائے جن کی طرف سے قربانی کرنے کا عام معمول ہوتا ہے ، جیسے اولاد اور بیوی کی طرف سے ، تو ایسے لوگوں کی طرف سے قربانی اُن کی اجازت اور اطلاع کے بغیر بھی جائز ہے ۔(احسن الفتاوی : 7/541)تضحیہ عن المیت : میت کی جانب سے قربانی کی جاسکتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کو اس کی وصیت فرمائی تھی کہ ان کی طرف سے قربانی کیا کریں ، چنانچہ حضرت علی بھی اس حکم کی تعمیل کرتے تھے ۔عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ:إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ۔ (ابوداؤد:2790) مردہ کی طرف سے قربانی کی دوصورتیں ہیں : میت نے وصیت کی ہو جس کی تعمیل میں قربانی کی جائے ۔ بغیر وصیت کے میت کو ثواب پہنچانے کی غرض سے قربانی کی جائے ۔پہلی قسم کاحکم : یہ قربانی واجب ہے ، اس لئے کہ وصیت کا نفاذ ضروری ہوتا ہے ، البتہ یہ میت کے تہائی مال میں سے کی جائے گی ۔ اور اس کا گوشت واجب التصدق ہوگا ، فقراء کو کھلا یا جائے گا ۔دوسری قسم کا حکم : یہ نفلی قربانی ہے ، میت کو اس کاثواب مل جائے گا ۔ اور گوشت عام قربانی کی طرح خود بھی کھاسکتے ہیں ۔ (رد المحتار : 6/326)(کتاب الفتاوی : 4/137)